• Sat, 13 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیپال: حکمرانوں کا یا عوام کا؟

Updated: September 13, 2025, 2:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

نیپال میں جو کچھ ہوا، اُس پر اب بھی یقین نہیں آتا۔ کیا واقعی پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگائی گئی؟ جی ہاں ۔ مگر یقین نہیں آتا۔ کیا سپریم کورٹ کی عمارت کو بھی نہیں بخشا گیا؟ جی ہاں ۔ مگر یقین نہیں آتا۔ کیا وزیر اعظم اولی کو روپوش ہونا پڑا؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 نیپال میں  جو کچھ ہوا، اُس پر اب بھی یقین نہیں  آتا۔ کیا واقعی پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگائی گئی؟ جی ہاں ۔ مگر یقین نہیں  آتا۔ کیا سپریم کورٹ کی عمارت کو بھی نہیں  بخشا گیا؟ جی ہاں ۔ مگر یقین نہیں  آتا۔ کیا وزیر اعظم اولی کو روپوش ہونا پڑا؟ جی ہاں ۔ مگر یقین نہیں  آتا۔ آپ نیپال میں  رونما ہونے والے جس کسی واقعہ کا ذکر  کریں  اس کی تصدیق ہوجانے کے باوجود یقین نہیں  آتا۔ یقین اس لئے نہیں  آتا کہ جو کچھ ہوا بہت زیادہ ہوا اور بہت کم وقت میں  ہوا۔
 سیاسی مبصرین نے جہاں  اتنی تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کیلئے عوام بالخصوص نئی نسل میں  پائی جانے والی اُس بے چینی کا حوالہ دیا ہے جو کافی عرصے سے پائی جارہی تھی وہیں  نئی نسل کے جذبات و احساسات کو نہ سمجھ پانے کی اُس غلطی کی بھی نشاندہی ہے جو حکمرانوں  سے سرزد ہوئی۔ یاد رہے کہ جو سری لنکا میں  ہوا کم و بیش وہی بنگلہ دیش میں  ہوا اور جو اِن دونوں  ملکوں  میں  ہوا کم و بیش وہی نیپال میں  ہوا۔ ان واقعات میں  ایک خاص قسم کا ’’انداز‘‘ (پیٹرن) دکھائی دیتا ہے لہٰذا بعض مبصرین اس میں  کسی بیرونی ملک کا ہاتھ بھی دیکھ رہے ہیں  مگر جب تک کسی ہاتھ کے ہونے کی توثیق نہیں  ہوتی کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ 
 بالفرض بیرونی ہاتھ ہو تب بھی جب تک کسی واقعے یا سلسلۂ واقعات کیلئے فضا سازگار نہ ہو یعنی بیرونی ہاتھ کو حرکت کا موقع نہ ملے تب تک کچھ نہیں  ہوسکتا۔ زیر بحث پڑوسی ملک میں  کچھ تو تھا اور یقیناً تھا جو عوام کو پریشان کئے ہوئے تھا۔ نیپال کے حالات سے واقفیت رکھنے والے بتاتے ہیں  کہ بے روزگاری تھی، اقرباء پروری تھی، اقتدار کو چند افراد اپنی جاگیر سمجھتے تھے اور باری باری اقتدار سنبھالتے تھے، وغیرہ۔ جو بات مذکورہ ملکوں  کے حکمرانوں  نے نہیں  سمجھی وہ یہ تھی کہ اب جو نئی نسل منصہ شہود پر ہے، وہ انجان نہیں  ہے کیونکہ باخبری کا ایسا ذریعہ اُن کے پاس ہے جس پر خبروں  کی سونامی ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ جس جین زی کو حکومت کے خلاف بغاو ت کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے وہ ’’ٹیک سیوی‘‘ ہے یعنی ٹیکنالوجی کے استعمال میں  مہارت رکھتی ہے۔ وہ خبر ہی سے واقف نہیں  ہے بلکہ خبر کی جزئیات سے بھی آگاہ ہے۔ اسی لئے نیپال کے نوجوان جو بے روزگار ہیں ، مواقع کی تلاش میں  ہیں ، بہتر مستقبل کے خواب سجائے ہوئے ہیں ، وہ اپنے حکمرانوں  کے بچوں  کو پُرتعیش زندگی گزارتا ہوا دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے۔ وسائل کی اِسی لو‘ٹ نے اُنہیں  آپے سے باہر کیا۔ حکمرانوں  کو اس سے بچنا چاہئے تھا۔ اُنہیں  مختصر آبادی کے اپنے ملک کے ایک ایک نوجوان کو اعتماد میں  لینے کیلئے مناسب اور مؤثر اسکیمیں  جاری کرنی چاہئے تھیں ۔ اُنہیں  یقین دلانا چاہئے تھا کہ جو خواب اُنہوں  نے دیکھے اُن کی تعبیر بھی اُنہیں  دیکھنے کو ملے گی۔ ایسا نہ کرکے ہی اُنہوں  نے اپنی قبر کھودی اور ایسی ذلتوں  سے دوچار ہوئے کہ خدا کی پناہ!
 نیپال میں  بادشاہت تھی، پھر اس ملک نے جمہوریت کو اپنایا مگر افسوس کہ عوام کو نہ تو بادشاہت میں  انصاف ملا نہ ہی جمہوریت میں  اُن کیلئے بہتر امکانات پیدا ہوئے۔ اِتنی مختصر آبادی کا ملک اگر حکمرانوں  کی بدنیتی اور بدعملی کے سبب میدان جنگ میں  تبدیل ہوا تو اس کا سبب یہی ہے کہ آج کی دُنیا سبق سیکھنے کو تیار ہی نہیں  ہے۔ اہل اقتدار اب بھی اپنا مزاج اور ترجیحات بدلنا نہیں  چاہتے۔ 

nepal Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK