فوجی سربراہ کی دعوت پر مظاہرین اور حکام میں مذاکرات ، عبوری حکومت کے سربراہ کیلئے کُلمان گھسنگ، جسٹس سشیلا کارکی اور بالندرشاہ کے نام سامنے آئے۔
EPAPER
Updated: September 12, 2025, 1:14 PM IST | Agency | Kathmandu
فوجی سربراہ کی دعوت پر مظاہرین اور حکام میں مذاکرات ، عبوری حکومت کے سربراہ کیلئے کُلمان گھسنگ، جسٹس سشیلا کارکی اور بالندرشاہ کے نام سامنے آئے۔
نیپال میں خلفشاراور سیاسی بحران کی صورتحال بظاہر قابو میں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تاہم ملکی قیادت کی باگ ڈور کسے سونپی جائے اس پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق ٹھمنڈو میں تیسرے روز بھی کرفیو برقرار ہے، نیپالی فوج کا گلیوںا ور سڑکوں پر گشت جاری ہے اور اب تک۲۵؍ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ یاد رہے نیپال میں افراتفری پھیلنے پر فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا، آرمی چیف اشوک راج نےقوم سے ویڈیو خطاب میں مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت دی تھی، جس کے بعد مظاہرین اور حکام کے درمیان مذاکرات کی تیاریاں جاری ہیں۔ پُرتشدد احتجاج میں اب تک ۲۲؍ شہری ہلاک اور ۵۰۰؍ سوسے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
عبوری حکومت کیلئے کوششیں تیز
رپورٹ کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں۔ اس درمیان وزیر اعظم کی دوڑ میں کُلمان گھسنگ کا نام سب سے آگے ہے۔ساتھ ہی جسٹس سشیلاکارکی اور کٹھمنڈو کے میئر بالندر شاہ کے بھی ناموں کی گونج ہے۔ جمعرات کو فوجی جنرل سے ملاقات میں جنریشن-زیڈ (جین-زی) نے کُلمان گھسنگ کے نام کی تجویز پیش کی ہے۔ وہ بھی ایسے وقت جب فوجی جنرل اشوک راج سے خود سشیلا کارکی ملنے پہنچی تھیں۔ خیال رہے کہ جمشیدپور سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے کُلمان گھسنگ کی پہچان نیپال میں ایک ایماندار افسر کی ہے۔ وہ گزشتہ سال سرخیوں میں تب آئے تھے، جب انہیں مدت کار سے قبل ہی کے پی اولی کی حکومت نے عہدہ سے ہٹا دیا تھا۔ اس معاملہ میں اولی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔نیپال کے ’رامے چھیپ‘ میں پیدا ہوئے کُلمان گھسنگ محکمہ توانائی کے افسر رہ چکے ہیں۔۲۰۱۶ء میں نیپال حکومت نے انہیں محکمہ توانائی کے اہم عہدہ پر تقرر کیا تھا، وہ اس عہدہ پر۸؍ سال تک رہے تھے۔کُلمان نے جنریشن-زیڈ کے احتجاج کی کُلمان نے کھل کر حمایت کی تھی۔۵۴؍ سالہ گھسنگ ایک نچلے متوسط طبقہ سےتعلق رکھتے ہیں۔
عبوری وزیر اعظم کیلئے کُلمان کا نام آگے کیوں ہے؟
چونکہ کُلمان گھسنگ محکمہ توانائی میں منیجنگ ڈائریکٹر ہوتے ہوئے کے پی اولی سے براہ راست متصادم ہوئے تھے۔ اولی کی وجہ سے ہی کُلمان گھسنگ کی کرسی وقت سے پہلے چلی گئی تھی۔ کُلمان کے معاملہ پر نیپال میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔ لوگوں نے اولی حکومت پر ایک ایماندار افسر کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس معاملہ پر کے پی اولی ایوان سے لے کر سڑک تک اکیلے پڑ گئے تھے۔ نیپال کی بیشتر اپوزیشن پارٹیوں نے گھسنگ کی حمایت کی، اس وقت کی حکمراں کانگریس نے بھی گھسنگ کی حمایت میں بیان دیا تھا۔گھسنگ ایک کام کرنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ جب نیپال کے محکمہ توانائی میں آئے تب نیپال کے شہری علاقوں میں صرف۱۸؍ گھنٹے بجلی ملتی تھی۔ گھسنگ نے اسے۲۴؍ گھنٹے کرایا۔قابل ذکر ہے کہ سشیلا کارکی کے نام سے صرف جین-زی کے کچھ لوگ متفق ہیں۔ پارٹیوں کی طرف سے کارکی کی دبی زبان سے مخالفت کی گئی ہے۔ کارکی کا نام سامنے آنے کے بعد سابق وزیر اعظم پرچنڈ، کے پے اولی اور کانگریس کے جنرل سیکریٹری نگن تھاپا نے بیان جاری کیا ہے۔ ان لوگوں کو کہنا ہے کہ آئین کے خلاف کوئی کام نہ ہو۔
’جین-زی‘، آپس میں ہی لڑ پڑے
وزیر اعظم کے عہدہ کی دوڑ میں بجلی بورڈ کے سابق سربراہ کُلمان گھسنگ اور نیپالی سپریم کورٹ کی سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کے نام ہیں۔ دوسری جانب کٹھمنڈو کے میئر بالین شاہ کے حامیوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ ایسے میں انکے حامی آپس میں ہی لڑپڑے۔ بھدرکالی واقع نیپالی فوج کے ہیڈکوارٹر کے باہر ’جین-زی‘ حامیوں کے درمیان ہی عبوری حکومت کے انتخاب پر لڑائی ہو گئی۔سشیلا کارکی اورکبالین شاہ کے حامی فوجی ہیڈ کوارٹر کے باہر ہی اس بات پر ایک دوسرے سے الجھ گئے کہ نیپال کی قیادت کون کرے گا۔ اس تصادم کے باعث علاقہ میں ایک بار پھر کشیدگی کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ اولی کے استعفیٰ کے بعد اب تک جین-زی یہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔ میٹنگ کے بعد ہر بار نیا نام سامنے آ رہا ہے۔