کیا نیپال اچانک جل اُٹھا؟ کیا اہل اقتدار کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی بے چینی کا اندازہ نہیں تھا؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ پڑوسی ملک میں بھڑکے تشدد کی مذمت کی جائے۔
EPAPER
Updated: September 11, 2025, 3:47 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کیا نیپال اچانک جل اُٹھا؟ کیا اہل اقتدار کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی بے چینی کا اندازہ نہیں تھا؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ پڑوسی ملک میں بھڑکے تشدد کی مذمت کی جائے۔
کیا نیپال اچانک جل اُٹھا؟ کیا اہل اقتدار کو عوام بالخصوص نوجوانوں کی بے چینی کا اندازہ نہیں تھا؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ پڑوسی ملک میں بھڑکے تشدد کی مذمت کی جائے۔ مطالبات کتنے ہی جائز ہوں، عوامی بے چینی کا کتنا ہی بڑا جواز ہو اور حکومت کی غلطیاں یا بے حسی کے نقوش چاہے جتنے بڑے پیمانے پر منظر عام پر ہوں، مظاہرین کو تشدد برپا کرنے کی اجازت نہیں مل جاتی۔ بتایا گیا ہے کہ مظاہرین میں اکثریت اُن نوجوانوں کی ہے جو ’’جن زی‘‘ کہلاتے ہیں یعنی جن کی عمریں تیرہ سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ یہ عمر اسکول اور کالج میں حصول ِ تعلیم کی ہوتی ہے مگر اس عمر میں اسکول کالج چھوڑ کر اگر یہ نوعمر یا نوجوان سڑکوں پر ہیں اور بے قابو ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ حالات ناقابل برداشت ہوچکے تھے تب بھی ایک ناقابل برداشت صورت حال سے نمٹنے کیلئے دوسری ناقابل برداشت صورت حال پیدا کرنے کی اجازت نہ تو قانون سے ملتی ہے نہ ہی انسانی اقدار میں اس کیلئے جگہ ہے۔
جو ہوا وہ قابل مذمت ہے اور امن و امان پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی ملک یا قو م سے تعلق رکھتا ہو، اس کی مذمت ہی کریگا۔ رہا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات ہی کیوں پیدا ہوئے اور مظاہرین کا غم و غصہ اچانک تشدد میں کیوں بدل گیا تو موصولہ خبریں گواہی دے رہی ہیں کہ مظاہرین پُرامن ہی تھے مگر اہل اقتدار کی جانب سے اُنہیں زبردستی روکنے اور اُن کے خلاف کارروائی کرنے یعنی اُن پر طاقت کے ـذریعہ قابو پانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بھڑنت ہوئی اور پھر مظاہرین آپے سے باہر ہوگئے۔ یہ اس لئے قرین قیاس لگتا ہے کہ نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی پہلے بھی لگ چکی تھی اور عوام پہلے بھی ناراض و برہم تھے مگرایسی نوبت نہیں آئی تھی کہ مظاہرین نے ملک کی پارلیمنٹ کو بخشا نہ سپریم کورٹ کو،نہ وزیروں کو نہ سیاستدانوں کو۔ ایسا نہ ہوتا اگر ملک کے نوجوان بے روزگاری سے نہ لڑ رہے ہوتے۔ ایسا نہ ہوتا اگر نوجوان نسل کی بے روزگاری کا منہ چڑاتی وہ تصاویر سوشل میڈیا پر آئے دن گردش نہ کرتیں جن میں وزراء اور سیاستدانوں کی اولادیں پُرتعیش زندگی گزارتے ہوئے دیکھی گئیں۔
وہ نسل جو اپنے خون پسینے سے مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنے کیلئے بیقرار ہے جب اقتدار سے وابستہ لوگوں کے جگر گوشوں کو محنت کے بغیر رنگ رلیاں مناتے ہوئے دیکھے گی تو لازم ہے کہ اسے اپنا مستقبل بننے سے پہلے بکھرتا ہوا دکھائی دیگا اور وہ فرسٹریشن کا شکار ہوگی۔ موصولہ خبروں سے واضح ہے کہ آگ اچانک نہیں لگی بلکہ مواقع چھننے، بدعنوانی کا سایہ مہیب ہونے اور تسلسل کے ساتھ نئی نسل کے مطالبات سے چشم پوشی کے سبب بے چینی لگاتار بڑھ رہی تھی، اس پر سو شل میڈیا پر قدغن نے قیامت ڈھا دی جس کا معنی سمجھنے میں عوام نے غلطی نہیں کی کہ مقصد یہ ہے کہ عوام کچھ دیکھیں نہ سنیں، کچھ کہیں نہ کوئی تحریر یا ویڈیو ایک دوسرے میں تقسیم کریں۔ بعض نوجوانوں کا بیان خبروں میں نقل ہوا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی نوبت آئے مگر جب آچکی ہے تو اب وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس ’’عزم‘‘ کا نتیجہ منظر عام پر ہے کہ نیپال نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ایسے ہی واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا اور اہل اقتدار غیر قانونی طریقے سے کیفر کردار کو پہنچے۔