ایک زمانہ تھا جب حکومتیں خواہ وہ ریاستی ہوں یا مرکزی، ایندھن کے داموں کی گرانی سے ڈرتی تھیں۔ اس کا ایک مطلب ہوتا تھا چوطرفہ گرانی۔ اس کا دوسرا مطلب ہوتا تھا عوام کی بے چینی۔ اس کا تیسرا مطلب ہوتا تھا اقتدار کے خلاف غم و غصہ۔
EPAPER
Updated: April 17, 2025, 12:58 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایک زمانہ تھا جب حکومتیں خواہ وہ ریاستی ہوں یا مرکزی، ایندھن کے داموں کی گرانی سے ڈرتی تھیں۔ اس کا ایک مطلب ہوتا تھا چوطرفہ گرانی۔ اس کا دوسرا مطلب ہوتا تھا عوام کی بے چینی۔ اس کا تیسرا مطلب ہوتا تھا اقتدار کے خلاف غم و غصہ۔
ایک زمانہ تھا جب حکومتیں خواہ وہ ریاستی ہوں یا مرکزی، ایندھن کے داموں کی گرانی سے ڈرتی تھیں۔ اس کا ایک مطلب ہوتا تھا چوطرفہ گرانی۔ اس کا دوسرا مطلب ہوتا تھا عوام کی بے چینی۔ اس کا تیسرا مطلب ہوتا تھا اقتدار کے خلاف غم و غصہ۔ اس کا چوتھا مطلب ہوتا تھا انتخابات میں ناکامی۔ اب نہ تو پہلا مطلب رہ گیا ہے نہ دوسرا، نہ تیسرا نہ چوتھا۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن جیتنے کے غیر روایتی اور جدید طریقے سیکھ لئے ہیں۔ عوام کی ناراضگی سے اُن کا کچھ لینا دینا نہیں رہ گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ایندھن کے دام جوں کے توں رہیں یا کم ہوجائیں، دیسی بازار پر اس کا اثر نہیں پڑتا، یہاں کے دام اونچے ہی رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر تیل کے دام کم ہوئے ہیں۔ اس سے قبل لاک ڈاؤن کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر دیسی بازار نے پہلو تک نہیں بدلا۔ یہاں کے دام شاندار صوفوں پر گاؤ تکیہ لگائے محو ِ استراحت رہے، ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ عوام کی بے حسی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس وقت ملک کے اکثر بڑے شہروں میں پیٹرول کی قیمت ۱۰۰؍ روپے فی لیٹر سے زیادہ ہے اور عرصۂ دراز سے یہی صورت ِ حال ہے۔ اس کے خلاف مرکزی حکومت تو کچھ کہتی نہیں ہے، ریاستی حکومتیں بھی خاموش رہتی ہیں کیونکہ دونوں کو اس سے ہونے والی آمدنی سے سروکار ہے، عوام سے نہیں۔ واضح رہنا چاہئے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بنیادی قیمت کے علاوہ مرکزی حکومت کے عائد کردہ ٹیکس بھی شامل ہوتے ہیں اور ریاستی حکومت کے عائد کردہ ٹیکس بھی۔ دونوں ہی کو ان میں تخفیف گراں گزرتی ہے چاہےاس کی وجہ سے عوام کتنی ہی گرانی میں دَبتے چلے جائیں۔ یہ ایک سبب ہے ایندھن کی گرانی کا۔
اس کے دوسرے سبب کا تعلق حکومت کے اُس فیصلے سے ہے جس کے تحت قیمت طے کرنے کا اختیار تیل کمپنیوں کو دے دیا گیا تھا چنانچہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز (او ایم سی) قیمت طے کرتی ہیں جن میں بھارت پیٹرولیم، ہندوستان پیٹرولیم اور انڈین آئل شامل ہیں۔جہاں تک ہمیں یاد ہے یہ فیصلہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ہوا تھا۔ جب منافع کمانے والی کمپنیاں خود ہی قیمت کا فیصلہ کررہی ہوں تو اُن سے دام کم کرنے کی اُمید فضول ہے۔
ایندھن کے دام بڑھنے کا تیسرا بڑا سبب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ہے۔ روپیہ کمزور ہوتا ہے تو عالمی سطح پر پیٹرولیم پروڈکٹس کی قیمت گھٹ جائے تب بھی درآمدی قیمت زیادہ ہی ہوتی ہے۔ چونکہ وطن عزیز ایندھن کی اپنی ضرورت کا بڑا حصہ درآمدات کے ذریعہ پورا کرتا ہے اس لئے ڈالر اور روپے میں جب بھی ٹھن جاتی ہے (جیسے کہ اِس وقت ٹھنی ہوئی ہے) ہماری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، دیسی مارکیٹ میں فراہمی سے ایندھن کی ریفائننگ ہوتی ہے جس کی لاگت اور پھر نقل و حمل کی لاگت تیل کو مزید مہنگا کردیتی ہے۔
ایندھن کے مہنگا ہونے کا ایک اور سبب ’’ڈائنامک پرائسنگ‘‘ کا وہ طریقہ ہے جس کے تحت قیمتوں کا روزانہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عالمی بازار میں دام بڑھتے ہیں تو اس طریقے کے تحت یہاں بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں مگر گھٹتے ہیں تو یہاں گھٹائے نہیں جاتے۔ منافع خور کمپنی خوب کما رہی ہے، حکومت کو بھرپور رِوینیو مل رہا ہے، اِس طرح دونوں مزے میں ہیں۔ پس رہے تو صرف عوام۔