وطن عزیز کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ کثیر لسانی کہہ کر آگے بڑھ جانا لسانی تنوع کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس لئے کہ کثیر لسانی ممالک اور بھی ہیں ۔
EPAPER
Updated: September 15, 2025, 2:04 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
وطن عزیز کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ کثیر لسانی کہہ کر آگے بڑھ جانا لسانی تنوع کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس لئے کہ کثیر لسانی ممالک اور بھی ہیں ۔
وطن عزیز کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ کثیر لسانی کہہ کر آگے بڑھ جانا لسانی تنوع کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس لئے کہ کثیر لسانی ممالک اور بھی ہیں ۔ بھلے ہی وہاں اتنی زبانیں نہ بولی اور لکھی جاتی ہوں جتنی ہندوستان میں ، مگر چار چھ زبانیں بھی رائج ہوں تو متعلقہ ملک کو کثیر لسانی کہنا غلط نہ ہوگا۔ ہندوستان کا معاملہ ایسے کثیر لسانی ملکوں سے مختلف ہے۔ یہاں نہ صرف یہ کہ درجنوں زبانیں بولی اور پڑھی جاتی ہیں بلکہ بے شمار بولیاں بھی ہیں جن کی اپنی پہچان ہے۔
گزشتہ روز، ملک میں ہندی دِوس (یوم ہندی زبان) منایا گیا۔ یہ دن۱۹۴۹ء سے منایا جارہا ہے مگر اکثر لوگ آج بھی نہیں جانتے کہ ہندی ہماری راج بھاشا ہے۔ عام تاثر اس کے راشٹریہ بھاشا ہونے کا ہے۔ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی بھاشا کو ہندوستان کی راشٹر بھاشا ہونے کا اعزاز حاصل نہیں ہے۔ ہندی کو اس زاویئے سے امتیاز حاصل ہے کہ اسے راج بھاشا تسلیم کیا گیا ہے۔ راج بھاشا کیاہوتی ہےیہ سمجھنا ضروری ہے۔ ملک کی جو دفتری زبان ہے وہ راج بھاشا ہے جس میں تمام سرکاری،پارلیمانی، انتظامی اور عدالتی کام انجام دیئے جاتے ہیں ۔ ہندی زبان کو را ج بھاشا کا درجہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۴۹ء کو حاصل ہوا تھا۔ اسی مناسبت سے ہر سال ۱۴؍ ستمبر کو یوم ہندی منایا جاتا ہے۔
جب آئین ساز کمیٹی میں زبانوں کے معاملے پر بحث ہوئی تھی تب جنوبی ہند کی ریاستوں کے نمائندوں نے تشویش ظاہر کی تھی کہ ہندی کا تسلط ریاستی زبانوں بالخصوص تمل، تیلگو، کنڑ اور دیگر کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ ملک کی کسی بھی زبان کو راشٹر بھاشا کا درجہ نہ دینا گویا آئین ساز کمیٹی کی حکمت تھی۔ تب سے لے کر اب تک یہی صورتحال ہے۔ وقت کے ساتھ جنوبی ریاستوں کی حساسیت بڑھ گئی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ہندی کے نفاذ کی کسی بھی کوشش کو جنوبی ریاستیں پسند نہیں کرتی ہیں اور جب بھی ایسی کوشش دکھائی دیتی ہے وہ اس کی پُرزور مزاحمت کرتی ہیں ۔ حالیہ برسوں میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں ۔ ہماری رائے یہ ہے کہ سب زبانیں سب کی ہیں ۔ اہل سیاست کو اس موضوع سے دور رہنا چاہئے۔ اگر اُنہیں یہ موضوع عزیز ہی ہے تو پھر تمام زبانوں کی وکالت کرنی چاہئے کیونکہ تمام زبانیں وطن عزیز کا اثاثہ ہیں ۔ اگر وہ کسی ریاست میں وہاں کی زبان کے فروغ کا بیڑا اُٹھائیں تو یہ ریاستی حدود تک تو درست ہے مگر اس کے باہر نہیں ۔ اہل سیاست کو یاد رکھنا چاہئے کہ زبانوں کی اصل خدمت کچھ اور ہے۔ اسے سیاسی نعرہ بنانایا دوسروں پر تھوپنا خدمت نہیں ہے۔ اس سے متعلقہ زبانوں کا نقصان ہی ہوتا ہے، فائدہ نہیں ہوتا۔ اُردو تو سیاست کا شکار ہوئی ہی، ہندی کو بھی جو فیض مل سکتا تھا نہیں ملا۔
ملک کی زبانیں ایک ایک شہری کی جاگیر ہیں لہٰذاہر زبان کے تحفظ کی کوشش ہونی چاہئے اور یہ تبھی ممکن ہے جب کسی بھی زبان کے تئیں دلوں میں بغض ہو نہ تعصب۔ سماج کے ذمہ داروں ، با اثر لوگوں اور عوامی حلقوں سے وابستہ افراد کو خود بھی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے حلقۂ اثر میں بالخصوص نئی نسل میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کیلئے ضروری حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ نئی نسل میں انگریزی سے رابطہ اور انگریزی کی کشش روز افزوں ہے۔ ان میں تمام ہندوستانی زبانوں کی محبت یا عزت کا جذبہ پیدا کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔