Inquilab Logo Happiest Places to Work

پاکستانی معیشت اور جنگ کا بوجھ

Updated: May 10, 2025, 3:23 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 آج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی میٹنگ ہے جس میں پاکستان کو ۱ء۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے بارے میں فیصلہ ہوگا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی دہلی اس کی شدومد کے ساتھ مخالفت کریگا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 آج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی میٹنگ ہے جس میں پاکستان کو ۱ء۳؍ ارب ڈالر کی امداد کے بارے میں فیصلہ ہوگا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی دہلی اس کی شدومد کے ساتھ مخالفت کریگا۔ پہلگام کے ہولناک قتل عام کے بعد نئی دہلی کے پاس بہت بڑا جواز ہے کہ اسلام آباد آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے استعمال کررہا ہے۔ چونکہ ہندوستان نے گزشتہ چند دنوں میں سفارتی سرگرمیوں کو تیز کیا، پہلگام حملے کے مد نظر مختلف ملکوں سے گفت و شنید کی اور اُنہیں اپنے موقف کی تائید کیلئے ہموار کیا ہے اس لئے پاکستان کے حق میں آئی ایم ایف کی امداد کا جاری رہنا اب اتنا سہل نہیں ہے جتنا پہلگام سے پہلے تھا۔ پاکستان کی مالی حالت درست ہوتی تو اُسے آئی ایم ایف کے سامنے گھگیانا نہ پڑتا۔ کون نہیں جانتا کہ اسے آئی ایم کی امداد ہزار مشکلوں سے ملی ہے۔ معاشی خستہ حالی کا تقاضا تھا کہ اسلام آباد اپنے معاملات بالکل ٹھیک رکھتا۔ معاملات ٹھیک رکھے جاتے تو پہلگام نہ ہوتا اور پہلگام نہ ہوتا تو جنگی حالات نہ پیدا ہوتے اور ان حالات میں امداد کی اگلی قسط کا حصول دشوار نہ ہوتا۔ دیکھنا ہوگا کہ آج مذکورہ میٹنگ میں کیا ہوتا ہے مگر امداد مل جائے تب بھی اسلام آباد کی معاشی حالت ایسی نہیں ہے کہ ’’مکمل جنگ‘‘چند روز بھی لڑ سکے۔ 
 پاکستان کو اس سال آئی ایم ایف کی جانب سے ۲؍ ارب ڈالر کا ’’بیل آؤٹ‘‘ پیکج نہ ملا ہوتا تو اس کی معیشت کس حال کو پہنچتی اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا۔ الگ الگ ایجنسیوں سےحاصل کئے گئے قرض کی وجہ سے جو توانائی پیدا ہوئی تھی وہ جنگ کی وجہ سے ضائع ہوجائیگی۔ سلامتی کے مسائل کی وجہ سے اس کے ہاں داخلی خارجی سرمایہ کاری متاثر ہے، بعض خبروں کے مطابق اسے حاصل ہونے والے ایف ڈی آئی میں ۲؍ بلین ڈالر کی تخفیف واقع ہوچکی ہے، اس کی وجہ سے صنعتیں متاثر ہیں ، جولائی ۲۲ء سے اب تک ہر ماہ اس کی صنعتی پیداوار کم ہوئی ہے۔ مینوفیکچرنگ ۵۰؍بلین ڈالر کے نیچے آگئی ہے۔ ۲۰۲۲ء میں اس سیکٹر کی پیداوار ۵۱ء۵۸؍ ارب ڈالر کی تھی جو ۲۰۲۳ء میں ۴۵ء۹۴؍ارب ڈالر پر سمٹ گئی۔ اس کے برعکس، غیر قانونی تجارت پروان چڑھی جس کا ثبوت ’’جدول برائے غیر قانونی تجارت‘‘ سے ملتا ہے۔ اس جدول میں ۱۵۸؍ ملکوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جس میں پاکستان کا نمبر ۱۰۱؍ واں ہے۔ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹ اکنامی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال ۷۵۱؍ بلین ڈالر کا خسارہ محض غیر قانونی تجارت کی وجہ سے برداشت کرتا ہے۔ 
 ایسی معاشی حالت میں پاکستان کے اہل اقتدار کی اولین ترجیح تمام ملکوں بالخصوص پڑوسی ملکوں سے بہتر تعلقات کی ہونی چاہئے۔ مالدار ممالک بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوپاتے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے الگ الگ جنگوں میں خود کو جھونکا جس کا خمیازہ اُن کی معیشت کو بھگتنا پڑا، عوام میں بے چینی پیدا ہوئی اور بڑی چھوٹی کسی بھی فوجی مہم سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ نہ تو جنگ ہو نہ ہی جنگ جیسے حالات پیدا ہوں ۔ ہوسکتا ہے اسلام آباد کے اہل اقتدار کی توجہ ان نکات پر ہومگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس کی ترجیحات میں ہے؟ چین کے دم پر لڑنا اوراس کے دم کو اپنا دم سمجھ لینا سراسر نادانی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK