• Tue, 25 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

والدین کی ہوشمندی اور طلبہ کا مستقبل

Updated: November 23, 2025, 2:04 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

سر چارلس نکولاس برینسن مشہور انگریز تاجر تھے جنہوں نے ۱۹۷۰ء میں ورجن گروپ کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ گروپ آج بھی موجود ہے بلکہ ترقی اور وسعت کے بعد پانچ بری کمپنیوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاید بہت لوگ نہ جانتے ہوں گے کہ اوائل عمری سے اُنہیں تجارت میں قدم رکھنے اور کچھ بن کر دکھانے کا شوق تھا۔

INN
آئی این این

 سر چارلس نکولاس برینسن مشہور انگریز تاجر تھے جنہوں  نے ۱۹۷۰ء میں  ورجن گروپ کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ گروپ آج بھی موجود ہے بلکہ ترقی اور وسعت کے بعد پانچ بری کمپنیوں  میں  تبدیل ہوچکا ہے۔ شاید بہت لوگ نہ جانتے ہوں  گے کہ اوائل عمری سے اُنہیں  تجارت میں  قدم رکھنے اور کچھ بن کر دکھانے کا شوق تھا۔ اپنے پہلے قدم کے طور پر اُنہوں  نے ’’اسٹوڈنٹ‘‘ نامی ایک میگزین جاری کیا تھا۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف ۱۶؍ سال کی تھی۔ پھر اُنہوں  نے ایسی قابل ذکر ترقی کی کہ سر کے خطاب سے سرفراز کئے گئے۔ ان کے حالات ِ زندگی اس قابل ہیں  کہ ان کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے مگر یہاں  غرض صرف اُن کے ایک قول سے ہے جس میں  اُنہوں  نے کہا تھا کہ ’’ اگر کوئی کہتا ہے کہ آپ ڈسلیکسیا کا شکار ہیں  تو اُس کی بات پر بھروسہ مت کیجئے، اس کا شکار ہونے میں  فائدہ ہے، بڑا فائدہ، مَیں  نے یہ فائدہ اُٹھایا ہے۔‘‘اگر اُن کے صرف ایک قول کو سامنے نہ رکھتے ہوئے تفصیل سے جائزہ لیا جائے کہ اُنہوں  نے اپنے ڈسلیکسک ہونے کا کب کب اور کہاں  کہاں  اعتراف کیا ہے تو حیرت انگیز خوشی ہوگی اور بالخصوص اُن والدین کو حوصلہ ملے گا جن کے بچے پڑھنے لکھنے میں  کمزور، الفاظ کے سمجھنے میں  پریشانی محسوس کرنے والے اور پڑھائی لکھائی کے دیگر معاملات میں  ہم جماعت طلبہ کے مقابلے میں  سست رفتار ہیں ۔ ڈسلیکسیا مرض نہیں  ہے۔ اس میں  مبتلا طالب علم نہ تو  پھسڈی اور ناکارہ ہوتا ہے نہ ہی اسے غبی کہا جاسکتا ہے۔ ایک نکولاس برینسن ہی نہیں ، کئی ایسی کامیابی شخصیات کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جنہوں  نے پڑھائی لکھائی کے اپنے نقص کو خاطر میں  نہ لاکر نئی راہیں  تلاش کرنے کی کوشش کی اور پھر حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ جو طلبہ ڈسلیکسیا کا شکار ہیں  اُنہیں  خصوصی توجہ سے نواز کر دیکھئے، دیگر معاملات میں  اُن کی ذہانت، چستی پھرتی اور صلاحیت دامن دل کھینچتی ہوئی لگےگی۔ مزید کچھ کہنے سے پہلے بتا دیں  کہ اعداد کو سمجھنے میں  دشواری   ڈِسکیلکولیا اور سمتوں  کو سمجھنے اور خوش خطی کے مسائل کو ڈِسگرافیا کہا جاتا ہے۔ متاثرہ طالب علم کے بارے میں  پہلے یہ سمجھا جانا چاہئے کہ اُسے کون سی دقت ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تعین کیا جانا چاہئے کہ وہ کن معاملات میں  بہت تیز ہے، زود حس ہے، اچھی فہم رکھتا ہے اور بہت سے طلبہ میں  اپنی مخصوص صلاحیت کی وجہ سے ممتاز ہے۔ اُسی مخصوص صلاحیت کو، جو اُسے دوسروں  سے ممتاز کرتی ہے، بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے مگر ہمارے معاشرہ میں  مشکل یہ ہے کہ صلاحیتوں  کی پہچان نہیں  کی جاتی بلکہ والدین اپنے مفروضات کے مطابق اُن کے بارے میں  رائے قائم کرتے ہیں  اور اپنی لاعلمی یا نادانی کی وجہ سے طالب علم کی مخفی صلاحیتوں  سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ ہم ایسے والدین کو جانتے ہیں  جو ڈسلیکسیا سے متاثر اپنے بچوں  کی جانب سے محض اس لئے بددل ہیں  کہ وہ پڑھائی لکھائی میں  اُن کا ’’نام روشن کرنے‘‘ کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں  کرتے جبکہ آس پاس کے بچے یا رشتہ داروں  کے بچے پڑھائی لکھائی میں  اول، دوئم یا سوئم آکر شاباشی وصول کرتے ہیں ۔ ایسے بچوں  کو اسمارٹ نہ سمجھ کر نظر انداز کرنا اُن کے ساتھ سخت نا انصافی ہے۔ معاشرہ کے والدین کو یاد رکھنا چاہئے کہ بچوں  پر اپنی پسند ناپسند تھوپنا اور اپنی ترجیحات کو اُن کی ترجیحات میں  تبدیل ہوتا دیکھنے کی آرزو کرنا درست طرز عمل نہیں  ہے۔ 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK