تشدد کے وہ واقعات جو کسی منظم سازش اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں وہ تو قابل نفریں اور قابل مذمت ہیں ہی، خواہ وہ فرقہ وارانہ ہوں یا نسلی امتیازات و تعصبات کا نتیجہ، مگر اس تشدد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو اچانک رونما ہو جاتا ہے
EPAPER
Updated: July 14, 2025, 2:51 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
تشدد کے وہ واقعات جو کسی منظم سازش اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں وہ تو قابل نفریں اور قابل مذمت ہیں ہی، خواہ وہ فرقہ وارانہ ہوں یا نسلی امتیازات و تعصبات کا نتیجہ، مگر اس تشدد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو اچانک رونما ہو جاتا ہے
تشدد کے وہ واقعات جو کسی منظم سازش اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں وہ تو قابل نفریں اور قابل مذمت ہیں ہی، خواہ وہ فرقہ وارانہ ہوں یا نسلی امتیازات و تعصبات کا نتیجہ، مگر اس تشدد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو اچانک رونما ہو جاتا ہے جیسے راہ گیر سے گاڑی کے ٹکرانے کے بعد جائے حادثہ پر موجود لوگوں کے درمیان، کھیل کھیل میں بچوں کی ہاتھا پائی کے بعد بڑوں کے درمیان، دکاندار اور گاہک کے درمیان، نچلی جماعت کے طالب علم کے ساتھ سختی برتنے کے بعد والدین اور اسکول انتظامیہ کے درمیان، مریض کے علاج سے نامطمئن رشتہ داروں اور اسپتال کے ڈاکٹروں کے درمیان، پڑوسیوں کے درمیان یا چھیڑخانی کے معاملے میں مخالف گروہوں کے درمیان، وغیرہ۔
ایسا نہیں ہے کہ لڑائی جھگڑا پہلے نہیں ہوتا تھا مگر، پہلے اگر چار لوگ لڑتے تو چار دوسرے سمجھانے بجھانے کیلئے دوڑ پڑتے تھے اور ان کے سمجھانے بجھانے پر صورت حال قابو میں آ بھی جاتی تھی۔ اب لڑنے والے زیادہ اور سمجھانے والے کم ہوگئے ہیں ۔ سمجھانے والے آ بھی جائیں تو سمجھ لینے اور غصہ تھوک دینے کا مزاج باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی برداشت اور تحمل کی طاقت جواب دے چکی ہے یا صبر و ضبط کا مادہ اب پایا ہی نہیں جاتا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لڑنا بھڑنا اور مارنا پیٹنا مخصوص رجحان کے طور پر مستحکم ہورہا ہے۔ چونکہ اس رجحان کو، تقویت پانے والے مخصوص رجحان کے طور پر نہیں دیکھا جاتا جیسا کہ حقوق انسانی کے ادارے اور تنظیمیں خواتین پر تشدد، دلتوں پر تشدد، گھریلو تشدد یا ہجومی تشدد وغیرہ کو دیکھتی ہیں اس لئے نہ تو اس کی سنگینی کو محسوس کیا جارہا ہے نہ ہی اس پر گفتگو ہو رہی ہے۔
اتنا عدم تحمل کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ بپھر جائیں اور مرنے مارنے پر اتر آئیں ، سماج کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے تھا مگر نہیں ہے۔ ’’چھٹ پٹ‘‘ کہلانے والے ان واقعات میں بھی تشدد پھوٹ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ زخمی یا ہلاک ہورہے ہیں ۔ جب تک اس نوع کے واقعات اکا دکا تھے اور کبھی کبھار رونما ہوتے تھے تب تک یہ افسوسناک تھے تشویشناک نہیں مگر اب چونکہ ان میں تواتر آگیا ہے اور یہ کبھی بھی اور کہیں بھی رونما ہونے لگے ہیں نیز یہ مسئلہ کہا سنی، بحث و تکرار، گالم گلوچ یا ایک آدھ گھونسے یا طمانچے سے کافی آگے نکل چکا ہے اس لئے اس کے تئیں حساسیت بہت ضروری ہے۔ حساسیت نفاذ قانون کے ذمہ دار سرکاری اداروں میں بھی ہو اور سماج کے ذمہ داروں میں بھی۔ وہ ملک جو اہنسا کے فلسفے پر ناز کرتا ہو اس کے شہری ہنسا یا تشدد کی راہ پر چل پڑیں یہ اس کے شہریوں کو زیب نہیں دیتا۔
عوام، عدم تشدد کی راہ پر تب آسکیں گے جب عدم تحمل کا راستہ ترک کرینگے۔ عدم تحمل رہے گا تو عدم تشدد شرمسار رہے گا۔ گاندھی کے فلسفے سے متاثر دنیا، گاندھی کے دیش واسیوں میں تحمل کا فقدان دیکھتی ہوگی تو کیا سوچتی ہوگی کہ جس گاندھی نے دنیا کو سکھایا اس کا اپنا ملک ان کا فلسفہ نہیں سیکھ سکا۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے مگر تب تک مار پیٹ اور’’منی فساد‘‘ ہو چکا ہوتا ہے۔ سماج اور معاشرہ کے ذمہ داران کو سوچنا ہوگا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ آپسی سمجھ بوجھ بڑھے، ایک طرف سہہ لینے اور معاف کرنے کا اور دوسری طرف غلطی ماننے اور معافی مانگنے کا جذبہ پروان چڑھے۔ اس کیلئے مذہبی رہنماؤں کو خاص طور پر فعال ہونا پڑیگا۔