Inquilab Logo Happiest Places to Work

خواتین ِ خانہ اور ان کی گراں قدر خدمات توجہ کی متقاضی

Updated: July 14, 2025, 1:35 PM IST | Dr. Khalida Abdulsalam | Mumbai

گھریلو خاتون، جو صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جاگتی ہے اور رات کے آخری پہر تک اپنی ذات کو پگھلا کر دوسروں کی زندگی آسان بناتی ہے مگر بدلے میں نہ تنخواہ پاتی ہے، نہ ستائش، نہ عزت، نہ مقام۔ ’’بس گھر پر ہی تو ہے!‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو نہ صرف اس کی ہمت توڑتا ہے بلکہ ہماری اجتماعی بےحسی کا آئینہ بھی ہے۔

Understand the dignity of the housewife and acknowledge her services. Photo: INN
خاتونِ خانہ کے وقار کو سمجھیں اور اس کی خدمات کا اعتراف کریں۔ تصویر: آئی این این

جب بھی معیشت کی بات ہوتی ہے، تو ہم تنخواہ، عہدہ، گریڈ اور مارکیٹ ویلیو جیسے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ مگر افسوس، ان تمام فہرستوں میں، وہ عورت شامل ہی نہیں ہوتی.... جو ہر دن، ہر لمحہ، ہر سانس، زندگی کے سب سے مشکل ترین کام سر انجام دیتی ہے۔ وہ گھریلو خاتون، جو صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جاگتی ہے اور رات کے آخری پہر تک اپنی ذات کو پگھلا کر دوسروں کی زندگی آسان بناتی ہے مگر بدلے میں نہ تنخواہ پاتی ہے، نہ ستائش، نہ عزت، نہ مقام۔ ’’بس گھر پر ہی تو ہے!‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو نہ صرف اس کی ہمت توڑتا ہے بلکہ ہماری اجتماعی بےحسی کا آئینہ بھی ہے۔
 سوچئے! اگر ایک دن گھر کی عورت کام بند کر دے، تو کیا ہوگا؟ نہ ناشتہ تیار، نہ کپڑے استری، نہ بچے اسکول کے لئے تیار، نہ دوائیں وقت پر، نہ والدین کی دیکھ بھال، نہ گھر میں سکون، نہ ذہنی راحت۔ پھر بتائیے، کیا صرف وہ مردانہ کام اہم ہے جو دفتر میں ہو رہا ہے؟ یا وہ مشقت زیادہ قیمتی ہے جو بغیر میز، بغیر اے سی، بغیر تنخواہ کے صبح سے رات تک ہوتی ہے؟ ہماری ماں، بیوی، بہن یا بیٹی گھر میں جتنی مشقت کرتی ہے، وہ صرف ’خدمت‘ نہیں، بلکہ پورے خاندان کی بنیاد رکھتی ہے۔
وہ:
٭وقت کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ ٭بجٹ کا حساب رکھتی ہے۔ ٭تعلیم کی نگرانی کرتی ہے۔ ٭جذباتی بحران کو سنبھالتی ہے۔ ٭مہمان نوازی کرتی ہے۔ ٭اور سب سے بڑھ کر، صبر کا پہاڑ بن کر کھڑی رہتی ہے۔
 پھر کیوں ہم اسے صرف ’گھریلو عورت‘ کہہ کر کمتر سمجھتے ہیں؟ کیا تم نے کبھی سوچا کہ وہ جو دن رات تمہارے لئے محنت کر رہی ہے، اُسے کوئی چھٹی نہیں؟ نہ سنڈے، نہ پبلک ہالی ڈے، نہ بونس، نہ ترقی، نہ شاباشی۔
اگر گھریلو کام کی تنخواہ مقرر کی جائے؟
 بین الاقوامی اداروں کے مطابق، اگر گھریلو خواتین کی محنت کو تنخواہ دی جائے، تو وہ رقم کروڑوں یا اربوں میں ہوگی۔ انڈیا کی سطح پر، یہ جی ڈی پی کا کم از کم ۲۰؍ تا ۳۹؍ فیصد حصہ بنتی ہے۔ یعنی، جو عورتیں گھر بیٹھ کر کچھ نہیں کرتیں، وہ اصل میں ملک کی معیشت کو اپنی خاموش خدمات سے سہارا دے رہی ہیں۔ پھر بھی، وہ تنہا ہیں صرف اس لئےہ وہ بازار کی گنتی میں نہیں آتیں۔
 کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں، ایک گھریلو خاتون کی زندگی کسی غلامی سے کم نہیں.... جو ہر وقت دستیاب ہے، جو ہر وقت مسکرا رہی ہے، جو کبھی اپنی تکلیف بتاتی بھی نہیں، تاکہ تم بےفکر رہو۔
کبھی سوچا؟
جب تم رات کو سوتے ہو، تو وہ چپکے سے کچن سمیٹ رہی ہوتی ہے۔
ز جب تم دفتر کی تھکن کا رونا روتے ہو، تو وہ اپنی تمام تھکن چھپا کر تمہیں تسلی دیتی ہے۔
ز جب تم بیمار ہوتے ہو، تو وہ رات بھر جاگتی ہے۔ مگر جب وہ بیمار ہوتی ہے، تب بھی تمہارے لئے کھانا ضرور بناتی ہے۔
ز یہ عشق نہیں، یہ عبادت ہے۔
معاشرے کی سب سے بڑی ناانصافی
 ہم نے مرد کو محنتی، کفیل، کمانے والا اور فخر کا نشان قرار دیا.... اور عورت کو؟ بس، ایک ’گھریلو عورت‘‘ جس کا کوئی سماجی تشخص نہیں، کوئی مالی خودمختاری نہیں اور اکثر نہ کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار۔ یہ ناانصافی نہیں، یہ ظلم ہے۔ کیا کوئی قوم اپنی نصف آبادی کو یونہی محرومی میں رکھ کر ترقی کرسکتی ہے؟
اب وقت آ چکا ہے
 یہ آواز صرف عورت کی نہیں، یہ آواز انسانیت کی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ:
 گھریلو خواتین کی محنت کو معاشی و سماجی حیثیت دی جائے۔
 حکومتیں انہیں سوشل سیکورٹی، پنشن اور حقوق فراہم کریں۔
 مرد حضرات گھریلو کام کو عورت کی ذمہ داری نہیں بلکہ مشترکہ فریضہ سمجھیں۔
 ’گھریلو عورت‘ جیسے الفاظ کی جگہ ’مکمل وقتی گھریلو منتظم‘ جیسے باوقار الفاظ استعمال ہوں۔ ہمیشہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے۔
خاتونِ خانہ: وہ جو گھر کو جنت بناتی ہے
 اس نے تمہیں سنوارا، تمہیں بچایا، تمہیں محبت دی، تمہیں عزت دی۔ اب تمہاری باری ہے، اسے مقام دو، زبان دو، عزت دو۔ یہ نہ کہو کہ وہ کچھ نہیں کرتی، یہ کہو کہ اگر وہ نہ ہوتی، تو تم کچھ نہ ہوتے۔ خدارا! اب عورت کو صرف آٹے، چائے اور کھانے کے معیار سے مت ناپو بلکہ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی قربانیوں، آنکھوں کی نمی اور خاموشی کی چیخوں کو بھی سنو۔ اس کا وقار تمہارے الفاظ میں، اس کا مقام تمہارے رویے میں اور اس کی عزت تمہارے دل میں ہونی چاہئے۔n
(مضمون نگار مومن گرلز ہائی اسکول، بھیونڈی کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK