Inquilab Logo Happiest Places to Work

سی ایم نعیم: اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

Updated: July 14, 2025, 2:02 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

آج نعیم صاحب کو، جو شکاگو میں مدفون ہوئے، اُن کا اپنا شہر بارہ بنکی ہی نہیں، ملک کا ہر وہ شہر یاد کررہا ہے جو اُن کی ادبی خدمات سے واقف ہے اور اُن کی قدر کرتا ہے۔ وہ آئندہ بھی اسی طرح یاد کئے جائینگے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سی ایم نعیم (چودھری محمد نعیم) کے رخصت ہونے کی خبر ملی تو محسوس ہوا کہ جیسے،بارہ بنکی،لکھنؤ اور علی گڑھ سے جو دھول اٹھی تھی وہ امریکہ میں  بیٹھ گئی۔ ان کی آواز میں  غصے کے باوجود نرمی تھی اور گفتگو میں  ٹھہراؤ تھا۔ یہ ٹھہراؤ بھی دراصل فکر و خیال کی دنیا کو رک رک کر دیکھنے کا تھا۔ ان کے یہاں  سوچنے کے عمل میں  جو ایک طرح کی بے پروائی تھی اس سے بھی ان کی شخصیت کا کچھ سراغ مل سکتا ہے۔ جیسے یوں  ہی کوئی بات کہنا چاہتے ہوں  اور وہ بہت اہم ہو۔ سامنے والے سے لازماً انہیں  توقع ہوتی تھی کہ انہیں  سنا جائے گا۔
  ایک گفتگو ایسی بھی میں  نے دیکھی اور سنی ہے کہ جب سوال کرنے والا کسی اور طرف متوجہ ہو گیا تو وہ ناراض ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔ انہیں  تین مرتبہ دہلی میں  قریب سے دیکھا اور سنا۔ یہ تینوں  ملاقاتیں  شمیم حنفی صاحب کے گھر پر ہوئیں ۔ پہلی ملاقات خاموشی کی نذر ہو گئی، اس کی وجہ خود میری خاموشی تھی کہ مجھے اس شام صرف انہیں  سننا تھا۔ یہ شعوری کوشش تھی تاکہ بغیر کسی رکاوٹ کے ان کے خیالات سے رشتہ قائم کر سکوں ۔ یوں  بھی ان کے یہاں  ایک طرح کا اطمینان تھا۔ بے اطمینانی کا سبب وہ آرزوئیں  بھی ہوتی ہیں ،جن کی وجہ سے شخصیت مجروح ہوتی ہے۔سامنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ بے چینی کا سبب علم و احساس کی دولت اور اس کی خلوت نہیں  بلکہ دنیا داری ہے۔ چودھری محمد نعیم کی پہلی تحریر جو میرے مطالعے میں  آئی وہ ماریہ رلکے کے خطوط کا ترجمہ تھا۔نیا دور لاہور کا کوئی شمارہ تھا۔ شمیم حنفی صاحب نے دوسری ملاقات میں  میرا تعارف کرایا اور یہ بھی کہا تھا کہ عمر میمن سے ان کی گہری دلچسپی ہے اور ان کے بارے میں  انہوں  نے کچھ لکھا بھی ہے۔ تعارف تو پہلی ملاقات میں  ہو گیا تھا مگر ایک خاموشی تھی جس نے کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں  بخشا۔
  خاموشی دوسری شام میں  بھی در آئی تھی، مگر ماریہ رلکے کے خطوط سے متعلق گفتگو شروع ہوئی۔ مجھے ان خطوط کے بارے میں  کچھ کہنا تھا۔ اس سوال کے جواب میں  کہ خطوط کیسے لگے۔کئی سال ہو گئے تھے ان خطوں  کو پڑھے ہوئے مگر کچھ یاد تھا جس نے دوسری ملاقات کو میرے لئے بہت اہم بنا دیا۔ یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ درمیان میں  انہوں  نے ٹوکا۔ عام طور پر وہ سنتے ہوئے کہتے تھے کہ اب آپ رک جائیے۔ اچھا تو یہ بتائیے۔ کوئی اور درمیان میں  گفتگو کرنے لگتا تو کہتے کہ بھائی ذرا گفتگو کو مکمل ہو جانے دیجیے پھر اپنی بات کہیے گا۔ شمیم حنفی صاحب سے ان کی دوستی بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ دہلی آنے کے بعد شمیم حنفی صاحب کا گھر تھا جو ملاقاتوں  اور باتوں  کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ استاد محترم پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی اور نعیم صاحب ہم وطن بھی ہیں  اور ہم عمر بھی۔دونوں کچھ اس طرح ملتے کہ جیسے بارہ بنکی کی زمین اپنی دھول کے ساتھ، دہلی آ گئی ہے۔اور بارہ بنکی کا نیلا آسمان دہلی میں  کچھ اور شفاف دکھائی دیتا۔ مگر جیسا کہ میں  نے عرض کیا ہے کہ وہ دھول امریکہ تک گئی اور وہ تمام عمر موجزن رہی۔ وہ ہندوستان آتے تو اپنے وطن بارہ بنکی ضرور جاتے۔ ان کے دوستوں  کا حلقہ کبھی بہت وسیع نہیں  رہا۔ طبیعت کی انفرادیت جسے کچھ لوگوں  نے سختی کا نام دیا ہے، وہ ان کی طاقت تھی۔ انہیں  اپنے مطابق کہنے اور سننے کیلئے آمادہ کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ اپنی ہی طرح سوچ سکتے تھے اور اپنی ہی طرح لکھ سکتے تھے۔انتخاب اور فیصلے کا حق جب انسان دوسروں  کے حوالے کر دیتا ہے، تو اس کی حیثیت ایک شے کی ہو جاتی ہے۔
 چودھری محمد نعیم کی شخصیت میں  نہ کوئی دکھاوا تھا اور نہ مرعوب کرنے کی کوشش۔جو لوگ امریکہ وغیرہ گئے اور ان کا پس منظر اردو کا لسانی اور تہذیبی معاشرہ تھا، اسے یاد رکھنا بلکہ زندگی کے بیشتر اوقات کو وقف کر دینا ایک واقعہ ہے۔ اردو فارسی کے ساتھ انگریزی کو اظہار کا وسیلہ بنانا ایک طرح کا غرور بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ غرور رفتہ رفتہ ادیبوں  کو اس لسانی و تہذیبی معاشرے سے دور کر دیتا ہے جس کی بنا پر انہیں  دیار غیر میں  عزت بھی ملی اور شناخت بھی۔ چودھری محمد نعیم کے بارے میں  شمیم حنفی صاحب نے جو لکھا ہے وہ نعیم صاحب کو سمجھنے کیلئے ایک بنیادی حوالہ ہے۔ شمیم حنفی صاحب جب ان سے گفتگو کرتے تو بھی یہ خطرہ لاحق ہوتا کہ وہ درمیان میں  کچھ کہیں  گے اور استفسار کی صورت میں  وہ اضافہ کرنا چاہیں  گے۔ یہ اضافہ بھی نہیں  ہوتا تھا بلکہ جیسے کوئی خیال اس موضوع کے حوالے سے ذہن میں  آیا ہو اور یہ فکر لاحق ہو کہ کہیں  کچھ وقت کے بعد رخصت نہ ہو جائے۔ یہ کیسی ادا تھی جو مجھے بہت بھاتی رہی۔
 محسوس ہوتا تھا کہ ایک اسکالر اپنی فکر اور اپنے خیال کو دوسرے کی فکر اور خیال کے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں  ان کا مزاج بہت ہی ذمہ دارانہ تھا۔ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی مسئلے کے تعلق سے کسی دریافت کو بہت جلد قبول نہیں  کرتے۔ سوال کرنا ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ ان کی طبیعت سراغ رسانی کیلئے بہت فعال تھی۔ وہ تحقیق میں  بظاہر چھوٹی نظر آنے والی بات کو بھی اہم جانتے تھے۔ دوسری ملاقات کا ایک اہم حوالہ جرجان زیدی کی کتابوں  تک رسائی ہے۔شمیم حنفی صاحب نے نعیم صاحب سے کہہ دیا تھا کہ سرور آپ کے ساتھ جامعہ کی لائبریری جائینگے۔ لائبریری میں  زیدی جرجان کی کئی کتابیں  تھیں ۔ جب انہوں  نے مضمون لکھا تو اس میں  میرا بھی ذکر تھا۔ یہ ان کی کیسی تہذیب تھی جو اب تقریباً رخصت ہو گئی ہے۔ لائبریری میں  کتابوں  کو دیکھتے ہوئے ان کی نگاہ اتنی تیز ہو جاتی تھی کہ جیسے لائبریری سے باہر وہ نگاہ اپنی تیز رفتاری کی منتظر تھی۔ ان کی دوسری تحریر جو میرے مطالعے میں  آئی وہ احمد ہمیش کے افسانوں  سے متعلق تھی۔ یہ مضمون انہوں  نے علی گڑھ کے فکشن سیمینار میں  پڑھا تھا۔

یہ بھی پڑھئے : ظہران ممدانی کی کامیابی کا راز اور ڈیموکریٹک پارٹی

  دوسری ملاقات میں  اس مضمون کا بھی ذکر آگیا تھا۔ احمد ہمیش کے افسانوں  پر یہ پہلا مضمون تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ریسرچ احمد ہمیش پر ہو۔ ذکر میر کا انگریزی میں  ترجمہ، ایک اہم واقعہ تھا۔ ذکر میر کا اردو ترجمہ نثار احمد فاروقی کی فارسی دانی ہی نہیں  بلکہ ان کی لسانی اور تہذیبی بصیرت کی بھی ایک بڑی مثال ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کوئی دوسرا شخص اتنا اچھا ترجمہ نہیں  کر سکتا تھا۔ اسی درمیان محمد حسن کا ذکر آگیا۔ اب ان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ کہنے لگے کہ وہ میرے استاد ہیں  اور میں  ان کا بہت احترام کرتا ہوں ۔ کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت سے بھی انہیں  گہرا لگاؤ تھا۔ وہ امریکہ میں  ان سے اپنی ملاقاتوں  کا ذکر کرنے لگے۔ اصل میں  ان ملاقاتوں  کا حاصل تو وہ گفتگوئیں  ہیں  جن میں  ایک ٹھہرا بھی تھا اور اپنی شرطوں  پر موضوع کے انتخاب کا غرور بھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK