گزشتہ روز جسٹس سوریہ کانت نے ملک کے ۵۳؍ ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف لیا۔ تقریب رسم حلف برداری میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو بہ نفس نفیس موجود تھیں کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو اُن کے عہدہ کا حلف دلانا صدر جمہوریہ ہی کا منصب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تقریب بہت اہم ہوتی ہے
گزشتہ روز جسٹس سوریہ کانت نے ملک کے ۵۳؍ ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف لیا۔ تقریب رسم حلف برداری میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو بہ نفس نفیس موجود تھیں کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو اُن کے عہدہ کا حلف دلانا صدر جمہوریہ ہی کا منصب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تقریب بہت اہم ہوتی ہے مگر تعجب کی بات یہ رہی کہ اس میں اپوزیشن لیڈر (ایل او پی) راہل گاندھی شریک نہیں ہوئے۔ اُن کے دفتر کی طرف سے اس کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ عدم شرکت کا سبب کیا ہے مگر اتنا تو سمجھا ہی جاسکتا ہے کہ ایک اہم عہدہ پر فائز رہنے والے شخص سے ایسی کوتاہی ہوئی ہے تو یقیناً اس کی کوئی وجہ ہوگی۔ اس سے قبل کہ وجہ معلوم ہوتی یا وجہ جاننے کی کوشش کی جاتی، بی جے پی نے طومار باندھنا شروع کردیا۔
پارٹی کے قومی ترجمان بی کے کشون نے ایکس پر لکھا کہ ’’آج راہل گاندھی چیف جسٹس کی تقریب ِ حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے، یہ پہلی بار نہیں ہے جب انہوں نے اس طرح کی کسی تقریب سے دوری بنائی ہو، وہ چاہے نائب صدر جمہوریہ کی تقریب ِحلف برداری ہو یا یوم آزادی کی تقریب، راہل گاندھی کہیں نہیں جاتے، اس سے صرف ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ راہل گاندھی کا ملک کی آئینی ذمہ داریوں پر یقین نہیں ہے۔‘‘ شری کیشون نے اس کے آگے بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایک اور ترجمان شہزاد پونا والا نے بھی راہل کو ہدف تنقید بنایا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ راہل کو جانا چاہئے تھا مگر ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اُن کے نہ جانے کی وجہ معلوم کئے بغیر سوالات کی بوچھار کردینا، اُنہیں غیر ذمہ دار ٹھہرانا اور لعن طعن کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پہلے راہل پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی تھی کہ وہ کوئی اہم ذمہ داری قبول نہیں کرتے مگر جب اُنہوں نے ایک آئینی عہدہ قبول کیا تو اب بات بات پر اُنہیں ٹوکا جاتا ہے، روکا جاتا ہے، کبھی سمجھایا جاتا ہے یعنی گیان دیا جاتا ہے اور کبھی اُن کے خلاف غلط اطلاعات اور گمراہ کن باتیں عام کی جاتی ہیں ۔ کوئی ایسا موقع بھی گنوایا نہیں جاتا جس میں پرانے الزامات کو تقویت پہنچانے کی گنجائش ہو، مثلاً پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ راہل کو جب دیکھئے غیر ملک چلے جاتے ہیں ۔ اب اُن کی کسی تصویر کے ساتھ یہ دعویٰ کردیا جاتا ہے کہ وہ غیر ملک میں چھٹی منا رہے ہیں یعنی ’’وہ اب بھی نہیں بدلے‘‘جبکہ نہ تو پہلے اُن کا جانا ایسا تھا کہ اس کے خلاف اتنا شور کیا جاتا نہ ہی اب ایسا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک تصویر کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ وہ ملائیشیا میں ہیں اور یہاں پنجاب میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ اس طرز عمل کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب راہل منی پور کا دورہ کرتے ہیں ، جموں جاتے ہیں ، سماج کے الگ الگ طبقوں کے لوگوں سے ملتے ہیں ، کسی نے اپنا درد بیان کیا تو اس کے درد کا مداوا کرتے ہیں تب اِن مخالفین کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ جب وہ ایسے موضوعات اُٹھاتے ہیں جن کے خلاف لب کشائی کی جرأت کوئی نہیں کرتا تب اُن موضوعات کی سنگینی اور سنجیدگی پر توجہ دینے کے بجائے کبھی انہیں ہنسی مذاق میں اُڑانے کی کوشش کی جاتی ہے یا کبھی ہر بات کو سرے سے خارج کیا جاتا ہے۔ جمہوریت تعمیری تنقید کو فال نیک مانتی ہے مگر بے جا تنقید اور تنقیص کی اجازت نہیں دیتی۔ ماضی کا پروپیگنڈہ ناکام ہونے کے باوجود ان مخالفین کو نت نئے پروپیگنڈوں سے باز رہنا نہیں آیا۔