کووڈ ایک بار پھر خطرہ بن کر انسانی آبادیوں پر منڈلا رہا ہے۔ برسات کی آہٹ بھی سنائی دے رہی ہے جسے باران ِ رحمت کہا جاتا ہے مگر انسان نے ماحول کے ساتھ اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ بارش کو رحمت سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگتی۔
EPAPER
Updated: May 24, 2025, 3:09 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کووڈ ایک بار پھر خطرہ بن کر انسانی آبادیوں پر منڈلا رہا ہے۔ برسات کی آہٹ بھی سنائی دے رہی ہے جسے باران ِ رحمت کہا جاتا ہے مگر انسان نے ماحول کے ساتھ اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ بارش کو رحمت سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگتی۔
کووڈ ایک بار پھر خطرہ بن کر انسانی آبادیوں پر منڈلا رہا ہے۔ برسات کی آہٹ بھی سنائی دے رہی ہے جسے باران ِ رحمت کہا جاتا ہے مگر انسان نے ماحول کے ساتھ اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ بارش کو رحمت سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اتنا ہی نہیں، بارش جب زحمت بن جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی مزید کئی زحمتیں بیماریوں کی شکل میں وارد ہونے لگتی ہیں۔کبھی کوئی نئی بیماری، جیسی کووڈ تھی، اور اگر یہ نہیں تو پرانی بیماریاں ہی گھوم پھر کر باعث ِپریشانی بن جاتی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر صحت عامہ کا معیار بلند کرنے کیلئے جو اقدامات کئے گئے اُن سے کافی فرق پڑا، زندگی کے امکانات میں اضافہ ہوا، زچگی کے دوران خواتین اور نومولودوں کی صحت کے مسائل سے نمٹنا کافی حد تک ممکن ہوگیا مگر نظام صحت کو جن چار خطرات کا سامنا تھا وہ ہنوز باقی ہیں: ماحولیاتی مسائل (جن کے سبب ۲۰۵۰ء تک ۱۴ء۵؍ ملین اضافی اموات ہوسکتی ہیں)، آبادیوں میں ضعیفوں کی تعداد بڑھنے سے اُن کی صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے اضافی انفراسٹرکچر کی ضرورت، کینسر، دورۂ قلب، ذیابیطس اور تنفس کے عوارض کا بڑھنا اور طبی سہولتوں میں پائی جانے والی عدم مساوات۔ عالمی نظام ِ صحت کو ان چار سنگین خطروں کا سامنا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومتیں دو خطوط پر کام کریں۔ ایک تو یہ کہ صحت عامہ کیلئے مختص کیا جانے والا بجٹ بڑھایا جائے، دوسرا طبی سہولتوں کا حصول ہر خاص و عام کیلئے آسان تر بنایا جائے۔
ہمارے ملک میں عوامی طبی سہولتیں اتنی کم ہیں کہ اُنہیں گنانا خود کو شرمندہ کرنے جیسا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جو لوگ مہنگا علاج کروا سکتے ہیں اُن کیلئے بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور بڑے سے بڑے اسپتال کے دروازے کھلے ہوئے ہیں مگر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی راز نہیں ہے کہ گلاس آدھا خالی بھی ہے۔ الگ الگ ریاستوں کی صورت حال بھی ظاہر کرتی ہے کہ کہاں گلاس خالی ہے اور کہاں بھرا ہوا ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ برائے ۲۰۔۲۰۱۹ء میں علاج معالجہ کی سہولت کے پیش نظر ریاستوں کی درجہ بندی کی گئی تھی جس میں کیرالا، تمل ناڈو اور تلنگانہ کو طبی سہولتوں کے اعتبار سے زیادہ نمبر دیئے گئے جبکہ یوپی، ایم پی اور بہار کا نام اس فہرست میں بالکل نیچے کی طرف درج ہوا ۔ اسی صورت حال کو شہروں کی پسماندہ اور متمول آبادیوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اُمورِ صحت میں بھی مساوات نہیں پیدا کرسکے تو اَب تک کیا کیا ہے؟ کیا اس نظام میں نجی کاری کو موقع دے کر فائیو اسٹار اسپتالوں کو معرض وجود میں آنے اور پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا ہے؟
۲۹؍ جون ۲۴ء کو اکنامک ٹائمس کی ویب سائٹ پر پوسٹ ہونے والی ایک خبر کے مطابق حکومت کے اپنے سروے میں پایا گیا کہ صحت عامہ کا نظام لازمی معیارات پر پورا نہیں اُترتا۔ اس کا پول کووڈ کے دوران کھل گیا تھا۔ ایک ایک اسپتال ناکامی کی تصویر بن گیا تھا۔ نظام ِ صحت کے تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے کے بعد اُمورِ صحت میں سرکاری فعالیت بڑھنی چاہئے تھی مگر کیا ایسا ہوا؟ بالائے ستم یہ کہ موسم ِباراں آزمائش کے نئے درواز ے کھولتا ہے۔ اسے سرکاری نظام کی آزمائش ہونا چاہئے مگر یہ عوام کی آزمائش بن جاتا ہے۔