جی ایس ٹی کی ظالمانہ شرحوں کے خلاف احتجاج آٹھ سال سے جاری تھا۔ حکمراں جماعت کے ہمنوا چاہے جتنی بغلیں بجائیں ، حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اس کی مضرت کم کی ہے یعنی اس سے ہونے والے نقصان یا اذیت کو کم کیا ہے، راحت نہیں دی ہے۔
EPAPER
Updated: September 07, 2025, 2:02 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جی ایس ٹی کی ظالمانہ شرحوں کے خلاف احتجاج آٹھ سال سے جاری تھا۔ حکمراں جماعت کے ہمنوا چاہے جتنی بغلیں بجائیں ، حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اس کی مضرت کم کی ہے یعنی اس سے ہونے والے نقصان یا اذیت کو کم کیا ہے، راحت نہیں دی ہے۔
جی ایس ٹی کی ظالمانہ شرحوں کے خلاف احتجاج آٹھ سال سے جاری تھا۔ حکمراں جماعت کے ہمنوا چاہے جتنی بغلیں بجائیں ، حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اس کی مضرت کم کی ہے یعنی اس سے ہونے والے نقصان یا اذیت کو کم کیا ہے، راحت نہیں دی ہے۔ راحت خود محسوس کی جاتی ہے اس کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ اسے راحت کہنا موزوں ہوتا اگر اس کی شرح کو قابل برداشت بنا دیا جاتا۔
ہمارے یہاں اتنی طرح کے ٹیکس ہیں کہ ایک سانس میں سب کے نام نہیں لئے جاسکتے۔ اِن کو ادا کرتے کرتے سانس پھولنے لگتا ہے۔ انکم ٹیکس، پروفیشن ٹیکس، انٹرٹیمنٹ ٹیکس، میونسپل ٹیکس، اسٹیمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، ٹرانسفر ٹیکس، ایجوکیشن سیس، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، ٹول ٹیکس، روڈ ٹیکس اور ایسے ہی دیگر۔ ماضی میں سیلس ٹیکس الگ الگ ہوا کرتے تھے جنہیں یکجا کرکے ایک نیا (جامع؟) ٹیکس نظام لایا گیا تھا جسے جی ایس ٹی نام دیا گیا۔ راہل گاندھی نے اس کی شرحوں کے غیر معمولی ہونے اور اس کے نفاذ میں عجلت کے سبب اسے ’’گبر سنگھ ٹیکس‘‘ قرار دیا تھا۔ اب حکومت نے ٹیکسوں کی اذیت میں کمی کو راحت کا نام دے کر تسلیم کرلیا ہے کہ اب سے پہلے یعنی آٹھ سال تک جو رقم عوام سے وصول کی گئی وہ گڈس اینڈ سروسیز ٹیکس نہیں بلکہ گبر سنگھ ٹیکس تھا اور راہل صحیح کہتے تھے۔
یاد رہنا چاہئے کہ جن غیر ملکوں میں ٹیکسوں کی شرحیں بہت زیادہ ہیں مثلاً آئیوری کوسٹ، فن لینڈ، جاپان یا ڈینمارک، وہاں عوام کو ویسی سہولتیں بھی میسر ہیں جن کے پیش نظر ٹیکس دہندگان، عائد شدہ ٹیکسوں کو بوجھ نہیں سمجھتے جس طرح وطن عزیز میں موٹر گاڑی مالکان اُن شاہراہوں پر زیادہ ٹول ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بے مزا نہیں ہوتے جو کشادہ، ہموار اور گڑھوں سے پاک ہوتی ہیں ۔ سارا معاملہ حکومت کی مہیا کردہ سہولتوں کا ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ سہولتوں کا فقدان ہے اور جو کچھ میسر ہے وہ ٹیکسوں کی شرح کے شایان شان نہیں ہے، اس لئے عوام کے نزدیک ٹیکس کی ادائیگی ناپسندیدہ قرار پاتی ہے۔ ہریانہ کا گرو گرام ہر سال موسم باراں میں قیامت خیز مناظر کیوں پیش کرتا ہے؟ یا ممبئی جیسا شہر جسے عروس البلاد کہا جاتا ہے برسات میں بے حال کیوں ہوجاتا ہے؟ ان شہروں میں ٹریفک اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟ عوامی ٹرانسپورٹ اعلیٰ معیاری کیوں نہیں ہے؟ علاج معالجہ کی صورت حال اتنی ناکارہ کیوں ہے؟ سرکاری اسپتالوں اور فائیو اسٹار نجی اسپتالوں کا موازنہ کیجئے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ سرکاری نظام ِصحت کتنا ابتر ہے۔ اسی لئے لوگ خوشی سے ٹیکس نہیں دیتے، بالجبر ادا کرتے ہیں یا بالاکراہ۔
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں صرف ۶ء۶؍ فیصد آبادی انکم ٹیکس ریٹرن بھرتی ہے اور اس میں سے بھی صرف ۲؍ تا ۳؍ فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ، اس کی وجہ اول تو یہ ہے کہ سب کی آمدنی اتنی نہیں کہ ٹیکس ادا کریں ، دوئم ٹیکسوں کی شرحیں اتنی زیادہ ہیں کہ آدمی یا تو کنجوسی کرنے لگتا ہے یا ٹیکس چوری کے راستے تلاش کرنے لگتا ہے۔ یہ موقع تھا کہ حکومت جی ایس ٹی کو منصفانہ بناتی مگر اس نے نصف انصاف پر اکتفا کرلیا ہے۔ٹھیک ہے اس سے گھریلو بجٹ جتنا بے قابو تھا اُتنا نہیں رہے گا مگر عوام ہر ماہ رقم پس انداز کر پائینگے اس میں شبہ ہے۔