صنعتی ماہرین کے مطابق اس سے معیشت کو فروغ ملے گا اورمانگ میں اضافہ ہوگا، ۸؍ سال تک عوام کو مہنگے ٹیکس کے بوجھ تلے کیوں رکھا گیا : اپوزیشن۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 3:30 PM IST | Agency | New Delhi
صنعتی ماہرین کے مطابق اس سے معیشت کو فروغ ملے گا اورمانگ میں اضافہ ہوگا، ۸؍ سال تک عوام کو مہنگے ٹیکس کے بوجھ تلے کیوں رکھا گیا : اپوزیشن۔
جی ایس ٹی میں اصلاحات کے اعلان کا جہاں خیر مقدم کیاجارہا ہےوہیںکچھ حلقوں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار بھی کیاجارہا ہے ۔ لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت نے بالآخر وہی راستہ اختیار کیا ہے جس کی وکالت انہوں نے ۸؍سال قبل کی تھی لیکن تب ان کی باتوں کو طنز اور مذاق میں اڑا دیا گیا تھا۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ۲۲؍ستمبر سے نئے جی ایس ٹی نظام کے تحت صرف دو ہی ٹیکس سلیب ہوں گے،۵؍ فیصد اور۱۸؍فیصد ۔ اس کے ساتھ ہی۱۲؍ اور۲۸؍ فیصد والے سلیب ختم کر دیے گئے ہیں۔ بظاہر یہ قدم عام صارفین اور چھوٹے کاروباریوں کو راحت دینے کے لیے ہے مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ دیر سے کیا گیا فیصلہ ہے اور حقیقت میں حکومت کی پالیسی ناکامی کا اعتراف ہے۔
راہل گاندھی نے ۲۰۱۶ء میں ہی ایک اہم بیان میں کہا تھا کہ جی ایس ٹی چونکہ بالواسطہ ٹیکس ہے، اس لیے یہ امیر اور غریب دونوں پر یکساں بوجھ ڈالتا ہے ۔ انہوں نے جی ایس ٹی کونسل سے اپیل کی تھی کہ شرح ۱۸؍ فیصد یا اس سے کم رکھی جائے تاکہ غریب طبقے پر غیر ضروری دباؤ نہ بڑھے۔ اس وقت بی جے پی اور حکومتی وزراء نے ان کے اس مشورے کا مذاق بنایا تھا۔اسی طرح۲۰۱۷ء میں انہوں نے جی ایس ٹی کو ’گبر سنگھ ٹیکس‘ قرار دیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اسے ایک سادہ اور کم شرح والا ٹیکس بنایا جائے۔ کانگریس اور عوامی دباؤ کے بعد کئی اشیاء سے۲۸؍فیصد کا بوجھ ہٹا بھی دیا گیا، مگر چار مختلف سلیب کی پیچیدگی نے کاروباری طبقے کو مسلسل پریشان رکھا۔ اب جبکہ حکومت نے سلیب کم کر دیے ہیں تو سوال یہ ہے کہ آٹھ برس تک عوام کو مہنگے ٹیکس کے بوجھ تلے کیوں رکھا گیا؟راہل گاندھی نے مزید کہا کہ حکومت نے نوٹ بندی اور غلط جی ایس ٹی ڈھانچے کی وجہ سے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ چھوٹے تاجر سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور روزگار کے مواقع کم ہوئے۔ ان کے مطابق حکومت نے بغیر تیاری کے جی ایس ٹی نافذ کیا جس نے ’گبر سنگھ ٹیکس‘ کی شکل اختیار کر لی۔ آج جب مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے تو یہی حکومت اسی نظام میں تبدیلی کر کے اسے ’دیوالی گفٹ‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ اصلاحات حکومت کی اس پالیسی کا اعتراف ہیں جس میں شروع سے ہی خامیاں موجود تھیں۔
تمل ناڈو کی آمدنی کے تحفظ پر سوال
تمل ناڈو کے وزیر خزانہ تھنگم تھنارسو نے جمعرات کے روز مصنوعات اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرحوں میں اصلاحات کا خیرمقدم کیا، لیکن ساتھ ہی ریاست کی آمدنی کے تحفظ پر تشویش کا اظہار بھی کیا ۔میٹنگ میں شریک ریاستی وزیر خزانہ تھینارسو نے اپنے بیان میں جی ایس ٹی کی شرح میں اصلاحات کا خیر مقدم کیا جس میں لائف انشورنس اور ذاتی صحت کی بیمہ خدمات پر چھوٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ریاست کی آمدنی کے تحفظ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ یا تو اضافی سیس کے التزام کے موجودہ نظام کو آئینی ترمیم کے ذریعے جاری رکھا جانا چاہیے یا جی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے صرف مضر اور لگژری اشیاء کے لیے ٹیکس کی لازمی شرح میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔تھینارسو نے اس بات پر زور دیا کہ آئی جی ایس ٹی سیٹلمنٹ کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے انٹیگریٹڈ جی ایس ٹی سیٹلمنٹ پر افسران کی کمیٹی کی رپورٹ کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور جی ایس ٹی کونسل نے دسمبر۲۰۲۵ء کے اختتام سے پہلے اسے نافذ کرنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے برآمدات کے لیے عارضی رقم کی واپسی اور انورٹیڈ ڈیوٹی کا ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے خودکار نظام کا بھی خیرمقدم کیا، اور کاروبار کرنے میں آسانی کے واسطے چھوٹے اور کم خطرے والے کاروباروں کے لیے رجسٹریشن کے آسان نظام کی حمایت کی۔
اصلاحات سے صنعتی دنیا میں خوشی کی لہر
صنعتی دنیا کے نمائندوں اور ماہرین نے اشیا ء اور خدمات ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کو اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور مہنگائی کو کم کرنے کا ایک قدم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صنعت ٹیکس میں کمی کے فوائد کو صارفین تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے۔ فکی کے صدر ہرش وردھن اگروال نے کہا کہ اصلاحات کیلئے فکی جی ایس ٹی کونسل کی ستائش کرتا ہے۔جیوتی وج ڈائریکٹر جنرل فکی نے کہا حکومت کی طرف سے طے کردہ جی ایس ٹی فریم ورک کی تنظیم نو اور اسے آسان بنانا ہندوستان کے اصلاحاتی سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ ٹیکس سلیب کی تعداد میں کمی اور بہت ساری اشیاء اور خدمات کو پانچ فیصد کی `میرٹ ریٹ کے تحت لانے سے معیشت کو بڑا فروغ ملے گا اور آنے والے دنوں میں مانگ میں اضافہ متوقع ہے۔