انسان، طبعی عمر کو پہنچنے کے بعد یا بیماری آزاری میں یا کسی حادثہ میں یا آسمانی آفات کی زد میں آکر فوت ہوتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی ہلاکت اُس کے اپنے فیصلے کے سبب بھی ہوتی ہے جب وہ غیر معمولی تناؤ میں یا شدید مایوسی کے سبب اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کے خاتمے کی بزدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
انسان، طبعی عمر کو پہنچنے کے بعد یا بیماری آزاری میں یا کسی حادثہ میں یا آسمانی آفات کی زد میں آکر فوت ہوتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی ہلاکت اُس کے اپنے فیصلے کے سبب بھی ہوتی ہے جب وہ غیر معمولی تناؤ میں یا شدید مایوسی کے سبب اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کے خاتمے کی بزدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے، ہم نے اموات کی ایک آدھ وجہ درج نہ کی ہو مگر یہی چند وجوہات ہوتی ہیں جن کی بناء پر انسان ابدی نیند سوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں ایک اور وجہ پیدا ہوگئی یا کرلی گئی، وہ ہے فیس بُک، انسٹا گرام یا یوٹیوب کیلئے ریل،فلم یا ویڈیو بنانے کے پھیر میں پڑ کر جان گنوا دینا۔ گزشتہ دو ڈھائی برس میں ایسے کئی اندوہناک واقعات پیش آئے جن میں محض نام و نمود اور شہرت کیلئے یا زیادہ سے زیادہ لائکس حاصل کرنے کیلئے نوجوانوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں ۔چند روز قبل نوی ممبئی میں ایک ایم او وی گاڑی کی ڈکی سے انسانی ہاتھ لٹکتا ہوا دیکھا گیا تھا۔ مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ کوئی جرم ہوا ہے اور ڈکی میں انسانی لاش ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ چلتی گاڑی اور لٹکے ہوئے ہاتھ کی ریل بنائی جارہی تھی۔ اس سے پہلے کاس گنج کانپور کے روٹ پر ایک نوجوان مسافر چلتی ٹرین کی بیرونی دیوار سے لٹک کر اپنی ویڈیوگرافی کروا رہا تھا۔ اس کی زندگی بچ گئی مگر اس سے قبل کہ وہ ٹرین میں دوبارہ سوار ہوتا، بیسیوں مسافروں کی سانسیں رک گئی تھیں ۔ایسے درجنوں واقعات اخبارات کی سرخیوں میں اُبھرے اور اُس بے حسی میں ڈوب گئے جس میں دورِ حاضر کا سماج مبتلا ہے۔ کوئی نوجوان (لڑکا یا لڑکی) آبشار کے تیز بہاؤ کی نذر ہوگیا تو کوئی کھائی میں گر پڑا۔ کوئی بلندی سے زمین پر آرہا تو کوئی درخت سے پھانسی لگا کرریل بنانے کی کوشش کررہا تھا اور سچ مچ پھانسی لگ گئی۔ مذکورہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اپنی ویور شپ بڑھانے، فالووَرس میں اضافہ کرنے اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بننے کا یہ جنون اگر جان لیوا نہ ہوتا تب بھی ایسا نہیں تھا کہ اس کو بخش دیا جاتا کیونکہ یہ تضیع اوقات تو ہے ہی، احساس کمتری اور برتری کے نفسیاتی مسائل کا سبب بھی بنتا ہے۔فالوورس بڑھے تو خوش نہ بڑھے تو ذہنی تناؤ کا شکار، ویڈیو وائرل ہوا تو خوش، نہ ہوا تو صدمے سے دوچار، کون انکار کرے گا کہ یہ اندھی دوڑ ہے جس سے ذہنی صحت، نفسیاتی صحت، وقت، توانائی، تعمیری سرگرمیوں کی جانب سے غفلت اور ایسے ہی دیگر مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
ریل بنانے کے مرض میں مبتلا نوجوانوں کے والدین اگر اُن کے اس مشغلے سے واقف نہیں ہیں تو اُنہیں اس غفلت سے باہر آجانا چاہئے۔ اُنہیں اپنے نوعمر اور نوجوان بیٹے بیٹیوں کی مصروفیت اور موبائل یا انٹرنیٹ سے اُن کی رغبت کی بابت ضرور جاننا چاہئے۔چونکہ یہ شہرت کے حصول کا آسان ذریعہ ہے اس لئے اس کی لت لگ جاتی ہے، اسی لئے اسے موذی مرض کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ریل دیکھنے کا رواج بھی بلندیوں پر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر ماہ ۲ء۵؍ ارب مرتبہ ریلس دیکھی جاتی ہیں ۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستان انسٹا گرام کا سب سے بڑا یوزر بیس ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ، اس کے جائز استعمال سے کسی کو روکنا بھی نہیں چاہتے مگر ریل کے اس روگ کی ہر صحیح العقل انسان کو مخالفت کرنی چاہئے کہ یہ جان لیوا بن رہا ہے۔