• Thu, 20 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوم تعلیم پر چند معروضات

Updated: November 11, 2025, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

۱۹۵۱ء میں ، وطن عزیز میں خواندگی کی شرح صرف ۱۸ء۳؍ فیصد تھی۔ ساٹھ سال بعد، ۲۰۱۱ء (کی مردم شماری) میں یہ شرح ۷۲ء۹؍ فیصد تک پہنچی۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی کامیابی تھی جسے اس اعتبار سے تاریخی بھی کہا جاسکتا ہے کہ وسائل کم تھے مگر ترجیحات درست تھیں اس لئے یہ معرکہ سر کرلیا گیا۔

INN
آئی این این
۱۹۵۱ء میں ، وطن عزیز میں  خواندگی کی شرح صرف ۱۸ء۳؍ فیصد تھی۔ ساٹھ سال بعد، ۲۰۱۱ء (کی مردم شماری) میں  یہ شرح ۷۲ء۹؍ فیصد تک پہنچی۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی کامیابی تھی جسے اس اعتبار سے تاریخی بھی کہا جاسکتا ہے کہ وسائل کم تھے مگر ترجیحات درست تھیں  اس لئے یہ معرکہ سر کرلیا گیا۔ ساٹھ سال کے اس عرصے میں ، زیادہ تر وقت کانگریس ہی اقتدار میں  تھی، اس لئے، خواندگی کی بلند سطح کا سہرا کانگریس ہی کے سر بندھنا چاہئے جو سیاسی وجوہ کی بناء پر موجودہ دَور میں  آئے دن ہدف ِتنقید بنتی ہے۔ نیشنل لٹریسی مشن ہو یا سرو شکشا ابھیان، کانگریس نے خواندگی بڑھانے پر کافی زور دیا۔ ۲۰۰۹ء میں  بھی کانگریس حکومت ہی نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ بنایا تھا جس کی کامیابی اور ناکامی کو غیر جانبدارانہ طریقے سے آنکنے کی آج بھی ضرورت ہے خواہ ۲۰۲۰ء میں  بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ذریعہ نیو ایجوکیشن پالیسی کے نفاذ سے حالات بدلنے کی اُمید پیدا ہوئی ہو۔ 
چونکہ ۲۰۱۱ء کے بعد مردم شماری نہیں  ہوئی اس لئے تازہ اعدادوشمار کیلئے دیگر ذرائع پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں  پیریڈک لیبر فورس سروے اور اینوئل اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (اے ایس ای آر) سے مدد ملتی ہے لہٰذ دستیاب اعدادوشمارسے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح دیہی اور شہری علاقوں  میں  معاشی نابرابری پائی جاتی ہے اُسی طرح خواندگی کی شرح میں  بھی یہ ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں  ہیں ۔ دیہی علاقوں  میں  خواندگی کی شرح اُتنی نہیں  ہے جتنی شہری علاقوں  میں  ہے۔ شہری علاقوں  میں  ۸۴ء۹؍ فیصدخواندگی ہے تو دیہی علاقوں  میں  ۶۸ء۹؍ فیصد۔
خواندگی کے پیمانے پر مردو ں  اور خواتین میں  بھی غیر منصفانہ صورت حال پائی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں  میں  خواتین کی شرح خواندگی (۵۸ء۷۵؍فیصد) اُتنی نہیں  ہے جتنی شہری علاقوں  کی خواتین کی شرح خواندگی (۶۷ء۷۷؍ فیصد) ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں  آنے کے بعد اس کا نعرہ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘زبان زد  ہوا مگر حقیقت یہ ہے کہ نعرہ حقیقت میں  نہیں  بدلا اور اس کا خاطرخواہ فائدہ ملک کی بیٹیوں  کو نہیں  ملا۔ جنوری ۲۵ء میں  یہ نعرہ دس سال کا ہوگیا مگر زمین پر نہیں  اُترا۔ بیٹیاں  نہ تو محفوظ ہیں  نہ ہی کسی دشواری کے بغیر تعلیم حاصل کرپارہی ہیں ۔ حکمراں  محاذ اگر اس نعرہ کے تئیں  مخلص ہوتا تو پہلوان بیٹیوں  کو اپنے بچاؤ کیلئے سڑکوں  پر نہ آنا پڑتا۔ ۲۰۲۱ء میں  کسی بیرونی ایجنسی نے نہیں  بلکہ ایک پالیمانی کمیٹی نے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کی بابت کہا تھا کہ حکومت نے ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۹ء کے درمیان اس مہم کا تقریباً ۸۰؍ فیصد فنڈ صرف اشتہارات پر خرچ کیا۔ 
اگر مسائل و خطرات کے باوجود بیٹی بچ بھی جائے اور پڑھ بھی لے تو کیا اُسے کریئر بنانے کا موقع ملے گا اور وہ ملازمت کی جگہ پر بھی محفوظ رہے گی یہ سوال موجودہ دور میں  بہت اہم ہوگیا ہے۔ مسلم معاشرہ میں  لڑکے اتنا نہیں  پڑھتے جتنا لڑکیاں  پڑھ لیتی ہیں ۔ مگر لڑکوں  کو کریئر بنانے کا جو موقع ہے وہ لڑکیوں  کو نہیں  ہے۔ اس کی وجہ سے لڑکوں  اور لڑکیوں  میں  عدم توازن کا خط دن بہ دن جلی ہوتا جارہا  ہے۔ اس کی وجہ سے کئی سماجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں  مثلاً پڑھی لکھی لڑکیوں  کا پڑھے لکھے لڑکوں  سے رشتہ آسان نہیں  رہ گیا ہے۔ پڑھے لکھے لڑکے کم ہیں  اور پڑھی لکھی لڑکیاں  زیادہ۔ مختصر یہ کہ تعلیم کے شعبے میں  ہنوز بڑی دشواریاں  ہیں  ۔ یہ شعبہ نہ تو بدعنوانیوں  سے پاک ہے نہ ہی تعلیم و تدریس کا حق ادا کرپارہا ہے۔
education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK