• Sun, 07 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں ’یاترا‘ کی کامیابی بھنانے کا چیلنج

Updated: September 04, 2025, 3:53 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بہار نے ۱۹۹۰ء میں کانگریس کو الوداع کہا تھا۔ ریاست میں اس کے آخری وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا تھے۔ اُن کے بعد سے اب تک کسی کانگریسی لیڈر کو وزیر اعلیٰ کی مسند پر براجمان ہونے کا موقع نہیں ملا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

بہار نے ۱۹۹۰ء میں کانگریس کو الوداع کہا تھا۔ ریاست میں اس کے آخری وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا تھے۔ اُن کے بعد سے اب تک کسی کانگریسی لیڈر کو وزیر اعلیٰ کی مسند پر براجمان ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اِس بار حالانکہ کانگریس نے بہت اچھی فضا بندی کی ہے اور اس کا ’’ووٹ چوری‘‘ سے متعلق نعرہ زبان زد خاص و عام ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُسے آر جے ڈی کے برابر سیٹیں مل جائینگی اور دونوں پارٹیاں اپنے اتحادی بائیں محاذ کے ساتھ مل کر بہت مضبوط حکومت قائم کرلیں گی۔ لالو پرساد اور تیجسوی یادو کی آر جے ڈی (راشٹریہ جنتا دل) سابقہ انتخابات منعقدہ ۲۰۲۰ء میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی جسے ۷۵؍ سیٹیں ملی تھیں۔ یہ سیٹیں ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں پانچ کم ہونے کے باوجود اچھی کارکردگی کا ثبوت تھیں، یہ الگ بات کہ اسے ۷۵؍ سے کافی زیادہ سیٹیں ملنے کی اُمید تھی اور خیال کیا جارہا تھا کہ پہلی مرتبہ تیجسوی یادو بہار کے وزیر اعلیٰ ہونگے۔
  ۷۵؍ سیٹوں کے باوجود تیجسوی کا وزیر اعلیٰ بننا ممکن ہوجاتا مگر کانگریس کی کارکردگی نہایت افسوسناک تھی۔ اسے اُتنی بھی سیٹیں نہیں ملی تھیں جتنی کہ ۲۰۱۵ء میں اس کا مقدر ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۵ء میں کانگریس کو ۲۷؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ ۲۰۲۰ء میں صرف ۱۹؍ مل سکیں۔ مگر تب میں اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تب نہ تو راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا (پارٹ ۱؍ اور پارٹ ۲) نکلی تھی نہ ہی لوک سبھا میں اس کی طاقت قابل قدر تھی۔ تب نہ تو ووٹ چوری کا انکشاف ہوا تھا نہ ہی ووٹر ادھیکار یاترا نے پورے بہار کو مہا گٹھ بندھن کی جانب اس قدر متوجہ کیا تھا۔ تب راہل گاندھی لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر بھی نہیں تھے۔ 
 سوال یہ ہے کہ کانگریس کو اُتنی سیٹیں کیوں نہیں مل سکتیں جتنی کہ آر جے ڈی کو ملنے کی اُمید ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے اہم ہے بہار میں کانگریس کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ جو آج بھی بہت مستحکم نہیں ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پارٹی کا ڈھانچہ تیار کرنا اور ایک ایک ضلع میں پُراثر قیادت کی تشکیل ایک دن کا کام ہے نہ ہی چند ہفتوں کا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ راہل گاندھی نے یاترا کے ذریعہ ۳۸؍ میں سے ۲۵؍ اضلاع میں رائے دہندگان سےبراہ راست رابطہ کیا مگر راہل کے رابطے کو ووٹ میں بدلنے کی مشقت پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو کرنی ہے ۔ جب تک اِس ڈھانچے سے جڑے ہوئے لوگ اپنی ذمہ داری کو پورے کمٹمنٹ کے ساتھ پورا نہیں کرینگے، راہل مزید ایک دو یاترا کرلیں تب بھی کوئی بڑی کامیابی مشکوک ہی رہے گی۔ 
 دوسری اہم بات صحیح لوگوں کو، جو واقعی جیت سکتے ہوں، ٹکٹ دینا ہے۔ جیتنے کی اہلیت اور بے داغ ماضی، یہ دو ایسے تقاضے ہیں جن پر ارباب اقتدار کی توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔صحیح لوگوں کو صحیح جگہ سے ٹکٹ دینے کیلئے کانگریس کو آر جے ڈی اور لیفٹ کے ساتھ سیٹ شیئرنگ کے مسئلہ سے بھی جوجھنا ہوگا۔ 
 تیسری اہم بات، اپنے کیڈر کو، جو اس وقت کافی پُرجوش ہے، ووٹنگ کی تاریخوں تک پُرجوش رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کیلئے راہل کا بار بار بہار کا دورہ کرنا ازحد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اب تک راہل کئی بار بہار کا دورہ کرچکے ہیں۔ پندرہ روزہ یاترا کے دوران بھی بہار ہی میں رہے۔ اس سے خود راہل کا کمٹمنٹ ظاہر ہوتا ہے۔ پارٹی کو اس کا فائدہ ملے گا، یہ توقع تو کی جاسکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK