• Mon, 01 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار: ۱۵؍ حلقوں میں ۶۷؍ ہزار ’ڈپلیکیٹ ‘ ووٹرس!

Updated: August 31, 2025, 2:54 AM IST | Patna

اس لحاظ سے پورے بہار کے تمام ۲۴۳؍ اسمبلی حلقوں میں ایسے لاکھوں نام ہونے کا امکان ہے، الیکشن کمیشن کا شفافیت کا دعویٰ اوندھے منہ گر گیا

The Election Commission`s SIR exercise in Bihar has been surrounded by many questions.
بہار میں الیکشن کمیشن کی ایس آئی آر کی مشق کئی سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے

  انتخابات کسی بھی جمہوری نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ ووٹ ہی وہ طاقت ہے جو عوام کو حکمراں منتخب کرنے کا حق دیتا ہے لیکن جب اسی ووٹ کی شفافیت اور اس کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگیں تو یہ محض ایک تکنیکی یا انتظامی مسئلہ نہیں رہتا۔ بہار میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خصوصی سروے کے نتائج اسی بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ کہانی ۲۰؍سالہ انجلی کماری سے شروع ہوتی ہے۔ تریوینی گنج اسمبلی حلقے کی اس ووٹر کے پاس دو الگ ووٹر آئی ڈی ہیں۔ دونوں پر عمر، شوہر کا نام اور پتہ ایک جیسا ہے اور اندراج بھی ایک ہی پولنگ بوتھ پر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انجلی ایک ہی انتخاب میں دو مرتبہ ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ بظاہر یہ ایک انفرادی غلطی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب رپورٹرس کلیکٹیو نے ریاست کے ۱۵؍ اسمبلی حلقوں کی   فہرستوں کی باریک بینی سے جانچ کی تو معاملہ سنگین ہوگیا۔ انکشاف ہوا کہ صرف ان ۱۵؍ حلقوں میں ہی ۶۷؍ ہزار سے زائد مشکوک ووٹر اندراجات ہیں جن میں لوگ دو بار درج ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حلقے میں اوسطاً ۴۵۰۰؍ کے قریب دہرے ووٹر موجود ہیں۔ اگر یہی تناسب پورے بہار پر لاگو کیا جائے تو تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔
  رپورٹرس کلیکٹیو کی رپورٹ کے مطابق ۳۴؍ ہزار سے زائد کیس ایسے ہیں جہاں نام، رشتہ دار کا نام اور عمر تقریباً ایک جیسا ہے۔ یہ سب سے مضبوط کیس ہیں کہ ایک ہی شخص کو دو بار درج کیا گیا ہے۔تقریباً ۱۴؍ ہزار کیسیز میں عمر کا فرق ۵؍ تا ۱۰؍ سال ہے لیکن باقی تفصیلات ایک جیسی ہیں۔۱۹؍ ہزارکیسیز میں نام اور رشتہ دار کا نام تو بالکل ایک ہیں مگر عمر کا فرق ۱۰؍ سال یا اس سے زائد ہے۔ یہ نسبتاً کمزور کیسیز ہیں لیکن پھر بھی مشکوک ہیں۔ مثال کے طور پر لؤکہا اسمبلی حلقہ  میں انکت کمار کا اندراج دو بار ہوا ہے۔ والد کا نام اور بوتھ نمبر ایک ہی ہے مگر ووٹر آئی ڈی مختلف ہیں۔ اسی طرح  بسفی حلقہ میں انجم شیخ کے دو اندراج ملے، والد کے نام میںمعمولی سا فرق کردیا گیا ہے۔ 
  انتخابی کمیشن نے ۲۷؍ جولائی کو دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بہارکی ووٹر لسٹ سے ۷؍لاکھ ڈپلیکیٹ نام نکال د ئیے ہیں۔ کمیشن کے مطابق یہ ریاست کے کل ووٹرز کا محض۰ء۸۹؍ فیصد تھے اور اب فہرست صاف ہو چکی ہے لیکن رپورٹرس کلیکٹیو کے ڈیٹا تجزیہ کار کی تحقیق نے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کردیا ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ یہ ڈپلیکیٹ اندراجات صرف جولائی کی ڈرافٹ فہرستوں میں ہی نہیں بلکہ جنوری ۲۰۲۵ء کی حتمی لسٹ میں بھی موجود تھے  حالانکہ اس وقت بھی کمیشن کے افسران نے خصوصی نظرثانی کے ذریعے ’صفائی‘ کا دعویٰ کیا تھا۔
  اس پوری مشق کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹر ڈیٹا کو ایسے فارمیٹ میں جاری کیا تھا جسے جان بوجھ کر مشینوں سے پڑھنا مشکل بنایا گیا تھا۔ گویا جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر تجزیہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم آزاد ڈیٹا اینالسٹس نے  اس مشکل کو بھی آسان کیا اور وہ ’اینکرپشن‘ توڑدیا تاکہ ڈیٹا کو مشین ریڈیبل بنایا جاسکے اور پھر رپورٹرس کلیکٹیو کے ساتھ مل کر اس کا تجزیہ کیا۔ماہرین نے پایا کہ ان کا ڈیٹا اینالیسس ۹۰؍ فیصد درست  تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر آزاد ماہرین یہ خامیاں پکڑ سکتے ہیں تو انتخابی کمیشن جیسے بڑے اور آئینی  ادارے کو تو لازماً یہ خامیاں نظر آنی چاہئے تھیں۔انتخابات کی شفافیت پر معمولی سا شائبہ بھی جمہوریت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بہار جیسے حساس سیاسی خطے میں، جہاں معمولی ووٹوں کے فرق سے حکومتیں بدل جاتی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں دہرے اندراج نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔ باقی صفحہ ۳؍ پر ملاحظہ کریں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK