Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملک کا اسکولی نظام ِتعلیم

Updated: August 10, 2025, 2:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جس طرح ملک کی آبادی کے عنوان پر آپ کو اختیار ہے کہ اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہوئے اسے اپنی قوت سمجھیں یا کمزوری، اس طرح اسکولی تعلیم کا نظام بھی ہے کہ اس عنوان پر آپ اپنے انداز فکر کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظام بہت اچھا ہے یا اِس میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جس طرح ملک کی آبادی کے عنوان پر آپ کو اختیار ہے کہ اس کے بارے میں  اپنی رائے قائم کرتے ہوئے اسے اپنی قوت سمجھیں  یا کمزوری، اس طرح اسکولی تعلیم کا نظام بھی ہے کہ اس عنوان پر آپ اپنے انداز فکر کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں  کہ یہ نظام بہت اچھا ہے یا اِس میں  اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔
  مگر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسکولی نظام ِ تعلیم سے کتنے طلبہ وابستہ ہیں ، اس میں  کتنے اساتذہ درس و تدریس کا فریضہ ادا کررہے ہیں  اور کتنے اسکول ہیں  جو ملک کے طول و عرض میں  پھیلے ہوئے ہیں ۔ جب ہم نے ان سوالوں  کا جواب سرکاری ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی تو اکنامک سروے ۲۵۔۲۴ء سے مدد ملی جس میں  کہا گیا کہ ملک میں  ۱۴ء۷۲؍ لاکھ اسکول ہیں  جن میں  ۹۴؍ لاکھ اساتذہ درس و تدریس پر مامور ہیں ۔ طلبہ کی تعداد کے بارے میں  اکنامک سروے بتاتا ہے کہ پورے ملک میں  ۲۴ء۸؍ لاکھ طلبہ اسکولی تعلیم کے مرحلے میں  ہیں ۔ اے آئی کے دور میں  کیا اِن تمام طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جارہی ہے؟
 اس سوال کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں  ۳۸ء۵؍ فیصد اسکولو ں میں  کمپیوٹر تھا۔ ۲۴۔۲۰۲۳ء میں  اس تعداد میں  گرانقدر اضافہ ہوا اور ۵۷ء۲؍ فیصد اسکولوں  میں  کمپیوٹر کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی۔ کہنے کو تو کہا جاسکتا ہے کہ محض چار پانچ سال میں  پچاس فیصد سے زائد اسکولوں  میں  کمپیوٹر آچکا ہے مگر ایسے دور میں  جب روبوٹکس کا دور دورہ ہے، مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی بڑے پیمانے پر زیر بحث ہے اور ساری دُنیا بالکل ہی نئے دور میں  داخل ہورہی ہے، ملک کے کم و بیش پچاس فیصد اسکولوں  میں  کمپیوٹر نہیں  ہے۔ اس صورتحال پر اطمینان کیا جائے یا تشویش میں  مبتلا ہوا جائے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں  ہے۔
 کمپیوٹر کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت اب ناگزیر ہے لہٰذا یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کتنے اسکولوں  میں  انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ اکنامک سروے میں  بتایا گیا کہ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں  ملک کے ۲۲ء۳؍ فیصد اسکولوں  میں  نیٹ موجود تھا۔ ۲۴۔۲۳ء میں  یہ صورتحال اس طرح بہتر ہوئی کہ ۵۳ء۹؍ فیصد اسکولوں  میں  نیٹ دستیاب ہوگیا۔ یہاں  بھی وہی سوال ہے کہ کیا اتنا کافی ہے؟ کیا اب تک گاؤں  گاؤں  کے چھوٹے بڑے ہر اسکول کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں  مل جانی چاہئے تھی؟
 گلاس آدھا بھرا ہوا بھی ہے اور آدھا خالی بھی ہے۔ ہمارا اسکولی نظام دُنیا کے سب سے بڑے نظام ہائے تعلیم میں  سے ایک ہے۔ اس پر جتنی رقم اور توانائی ہمیں  صرف کرنی چاہئے تھی وہ بحیثیت ملک ہم نے نہیں  کی۔ ہمارے ارباب اقتدار یہ سمجھ رہے ہیں  کہ دیگر ملکوں  کے اشتراک و تعاون سے ہم اپنی ناؤ کو پار لگانے میں  کامیاب ہوجائینگے مگر دورِ حاضر کی دُنیا پہلے اپنا خیال رکھتی ہے بعد میں  کسی اور کا، اور جب کسی اور کا خیال رکھنا شروع کرتی ہے تو اس میں  بھی اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ اس لئے اگر ہم دیگر ملکوں  پر انحصار کرتے ہیں  تو اس سے پہلے خود پر انحصار لازمی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خود انحصاری کے معاملے میں  ہم خود فریبی میں  مبتلا ہیں ۔ 
 ان اعدادوشمار میں  کہیں  بھی معیارِ تعلیم کی بات نہیں  آئی ہے اور شاید آئے گی بھی نہیں  کیونکہ معیارِ تعلیم کی حقیقت سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس لئے گلاس جتنا بھرا ہوا ہے اُس سے نظر ہٹا کر ہمارے ارباب اقتدار کو صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کتنا خالی ہے۔ اگر کمیاں  دور نہ ہوئیں  تو ترقی دور رہے گی۔ 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK