ملک میں ۲۴ء۸؍ کروڑ (نہ کہ ۲۴ء۸؍ لاکھ) اسکولی طلبہ ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ تعداد اکنامک سروے ۲۵۔۲۴ء میں ظاہر کی گئی تھی جس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ۱۴ء۷۲؍ لاکھ اسکولوں میں ۶۹؍ فیصد سرکاری اور ۲۲ء۵؍ فیصد نجی انتظامیہ کے تحت ہیں ۔
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 1:26 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ملک میں ۲۴ء۸؍ کروڑ (نہ کہ ۲۴ء۸؍ لاکھ) اسکولی طلبہ ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ تعداد اکنامک سروے ۲۵۔۲۴ء میں ظاہر کی گئی تھی جس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ۱۴ء۷۲؍ لاکھ اسکولوں میں ۶۹؍ فیصد سرکاری اور ۲۲ء۵؍ فیصد نجی انتظامیہ کے تحت ہیں ۔
ملک میں ۲۴ء۸؍ کروڑ (نہ کہ ۲۴ء۸؍ لاکھ) اسکولی طلبہ ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ تعداد اکنامک سروے ۲۵۔۲۴ء میں ظاہر کی گئی تھی جس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ۱۴ء۷۲؍ لاکھ اسکولوں میں ۶۹؍ فیصد سرکاری اور ۲۲ء۵؍ فیصد نجی انتظامیہ کے تحت ہیں ۔ سرکاری اسکول وہ ادارے ہیں جو براہ راست سرکاری سرپرستی میں ہیں ۔ نجی انتظامیہ کے اسکولوں میں اگر انفراسٹرکچر کی خامیاں ہیں تو اس کو بجا یا بے جا طور پر نجی انتظامیہ کی کوتاہی یا وسائل کے غیر تعمیری استعمال سے منسوب کیا جاسکتا ہے مگر جو سرکاری ہیں اُن کیلئے سرکار چاہے بھی تو کسی اور کوذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی۔ اسی لئے تعلیم سے سروکار رکھنے والوں کو اینوئل اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (رورل۔ دیہی) ۲۰۲۴ء کی بنیاد پر یہ سوال کرنا چاہئے کہ سرکاری اسکولوں میں ۶؍ سے ۱۴؍ سال کی عمر کے طلبہ کے داخلے کیوں کم ہوئے ہیں ؟
تشویش کی بات یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی کشش خاص طور پر ماند پڑرہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۲ء میں ان اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد جو کہ ۷۲ء۹؍ فیصد تھی، ۲۰۲۴ء میں کم ہوکر ۶۶ء۸؍ فیصد رہ گئی۔ داخلوں کی اس گراوٹ کو دیہی علاقوں کی معاشی حالت سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۴ء یعنی صرف دو سال میں ۶؍ فیصد کا فرق آجائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نہ تو بے روزگاری کی بڑ’ھتی شرح کو تسلیم کرتی ہے نہ ہی دیہی علاقوں کی معاشی بدحالی کو۔ حکومت کے اپنے دعوے ہیں مگر اُن کی دلیل عوامی حالات سے نہیں ملتی اسی لئے ارباب ِ تعلیم کو یہ سوال بار بار اُٹھانا چاہئے کہ سرکاری اسکولوں میں جب حکومت کا عمل دخل براہ راست ہے، داخلے کیوں کم ہورہے ہیں اور معیارِ تعلیم کیوں گر رہا ہے۔
معیار تعلیم کا ذکر آگیا ہے تو عرض کردیں کہ درجہ ہشتم کے طلبہ میں سے اگر ۴۵ء۸؍ فیصد ہی ایسے ہیں جو بنیادی ریاضی کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں تو اس سے پوری قوم کو مستقبل کے ہندوستان کی بابت فکرمند ہونا چاہئے۔ کیا ہم ایسی نسل تیار کررہے ہیں جو یا تو اسکول میں نہیں ہے اور اگر ہے تو جتنی صلاحیت ششم، ہفتم وغیرہ میں ہونی چاہئے وہ پیدا نہیں ہوتی۔ ذرا سوچئے یہ طلبہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پہنچ کر کیا کرینگے جب اُن کی اسکولی تعلیم ہی ناقص ہو۔ یہ سوالات موجودہ دور میں ہر خاص و عام کا منہ چڑاتے ہیں کیونکہ اب تو بنیادی ریاضی یا بنیادی سائنس کو زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکتا، اب جس موضوع پر بحث ہوتی ہے یا ہونی چاہئے وہ طلبہ میں صنفی مساوات ( لڑکوں کی کارکردگی بمقابلہ لڑکیوں کی کارکردگی) اور ڈجیٹل خواندگی کا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق اب ۹۰؍ فیصد گھروں کے نوعمر لڑکے لڑکیوں کے پاس اسمارٹ فون ہے۔ ہم اس کی توثیق نہیں کرسکتے مگر رپورٹیں یہی کہتی ہیں جن میں تشویش کے اس پہلو کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ۹۰؍ فیصد کے پاس اسمارٹ فون ہے جن میں سے ۱۴؍ تا ۱۶؍ سال کے ۸۰؍ فیصد طلبہ اُن کے استعمال سے بھی واقف ہے اس کے باوجود صرف ۵۷؍ فیصداس کا استعمال تعلیمی مقاصد کیلئے کرتے ہیں ۔ اِن اُمور کی جتنی تفصیل حاصل کی جائے، حالات میں بہتری کے اشارے کم ملتے ہیں اور خرابی کے شواہد زیادہ۔
ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے مگر سیاسی انتشار اور سماجی خلفشار کے سبب تعلیم، جو حقیقی ترقی کی بنیاد ہے، مسلسل نظر انداز ہو رہی ہے۔