لائسنس والی وین غیرقانونی رکشا اور ٹیکسیوں سے بہتر متبادل ہے اور اس سے روزگاربھی پیدا ہوگا: وزیر ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک۔ وین میں ایمرجنسی گیٹ اور الارم بھی ہوگا
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 10:22 PM IST | Mumbai
لائسنس والی وین غیرقانونی رکشا اور ٹیکسیوں سے بہتر متبادل ہے اور اس سے روزگاربھی پیدا ہوگا: وزیر ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک۔ وین میں ایمرجنسی گیٹ اور الارم بھی ہوگا
ریاستی وزیر برائے ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک نے اعلان کیا ہے کہ طلبہ کی سہولت اور انہیں حفاظت کے ساتھ اسکول لانے لے جانے کے انتظامات اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے مقصد سے اسکول بسوں کے علاوہ اسکول وین کو بھی لائسنس دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ لوگ غیر محفوظ طریقہ سے بچوں کو رکشا اور دیگر گاڑیوں میں اسکول بھیجتے ہیں جس کے مقابلے میں لائسنس والی وین زیادہ بہتر متبادل ہوگی۔
وزیر ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک نے اس فیصلہ کو جرأت مندانہ قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے والدین اسکول بسوں کی بڑھتی فیس کی وجہ سے اپنے بچوں کو بسوں کے بجائے ایسے رکشا میں اسکول بھیجتے ہیں جو اس کام کیلئے مناسب نہیں ہے۔ ان کے مطابق رکشا میں تین پہیے ہوتے ہیں اور وین میں چار پہیے ہوتے ہیں اس لئے وین کے پلٹنے کا خدشہ کم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ رکشا عام طور پر کھلا ہوتا ہے جبکہ وین ہر طرف سے بند ہوتی ہے جس میں بچے زیادہ محفوظ رہیں گے۔
پرتاپ سرنائک نے بیان دیا ہے کہ اسکول وین کو لائسنس جاری کرنے کے سلسلے میں جلد ہی نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا جس سے مہاراشٹر ملک کی پہلی ریاست بن جائے گی جہاں بچوں کو اسکول آمدورفت کیلئے باقاعدہ جدید ترین سیکوریٹی اور سہولیات سے لیس اسکول وین کے استعمال کی اجازت ہوگی۔
ان کے ذریعہ فراہم کی گئی اطلاع کے مطابق ایک ڈرائیور اور ۱۲؍ بچوں کی گنجائش والی وین کو اسکول وین کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی جس میں ایمرجنسی دروازہ اور اسکول بس میں دستیاب دیگر سہولیات بھی ہوں گی۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے ’آٹو موٹیو انڈسٹری اسٹینڈرڈ(اے آئی ایس)‘ کے معیارات میں تبدلی کی ہے جس کے تحت ۱۳؍ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش والی وین کو اسکول وین کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم ان وین میں اسکول بسوں کی طرح سہولیات ہونی چاہئیں مثلاً ان کی چھت مضبوط دھات کی بنی ہونی چاہئے، ان میں اسپیڈ گورنر لگے ہونے چاہئے تاکہ ان کی رفتار ۴۰؍ کلو میٹر فی گھنٹہ سے تجاوز نہ کرے۔ وین کا رنگ پیلا اور اس میں جی پی ایس لگا ہونا چاہئے۔ اس میں بیٹھنے کی مناسب جگہ اور سیٹ بیلٹ لگا ہونا چاہئے اور گنجائش سے زیادہ افراد کو سوار نہ کیا جانا چاہئے۔ ان کی کھڑکیاں ایلومینیم میش کی ہونی چاہئے۔ اسکول وین کے ڈرائیوروں کے لئے شناختی کارڈ رکھنا بھی لازمی ہوگا۔ آگ لگنے جیسے ایمرجنسی حالات کیلئے ان میں فائر الارم کی سہولت بھی ہوگی۔
واضح رہے کہ ۲۰۱۸ء تک حکومت کی جانب سے اسکول وین کیلئے لائسنس جاری کیا جاتا تھا لیکن کچھ افراد اس کے خلاف عدالت سے رجوع ہوئے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ طلبہ کی نقل و حمل کیلئے اسکول وین محفوظ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ البتہ اب مرکزی حکومت کی طرز پر ریاستی حکومت نے بھی نئے ضابطے بنائے ہیں جن میں گاڑی کے ڈیش بورڈ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانا، دروازہ کھلا رہنے پر الارم بجنا، پینک بٹن اور گاڑی کی اوپری حصہ پر اسکول کا نام تحریر ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی کے تحت اب نوٹیفکیشن جاری کرکے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ایک اندازہ کے مطابق فی الحال ایک لاکھ سے زائد اسکول وین بغیر اجازت کے چلائی جارہی ہیں۔ نیا قاعدہ نافذ ہونے سے یہ سب لائسنس حاصل کرکے خدمات انجام دے سکیں گے۔
حالانکہ اسکول بسیں چلانے والی تنظیم اس فیصلہ کو پسند نہیں کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد اور ٹریفک جام کے مسئلہ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اس سے پارکنگ کا مسئلہ بھی بڑھ جائے گا۔ ان کے مطابق وین میں ایک ساتھ بہت زیادہ بچوں کو بٹھا لیا جاتا ہے جس سے بچوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور ان کے تحفظ کا بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔