بہار کی انتخابی لڑائی دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔ ترازو کا پلڑا ایک ہی طرف جھکا ہوا نہیں ہے بلکہ فی الحال دونوں پلڑے برابر ہیں بلکہ غور سے دیکھیں تو دوسرا پلڑا زیادہ وزنی نظر آ رہا ہے۔ اس پر گزشتہ روز اہم واقعہ یہ ہوا کہ مہا گٹھ بندھن یا ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے لیڈروں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے بیشتر اختلافات دور کرکے متحد ہوجانے کا جو پیغام دیا اُس سے الیکشن پر مثبت اثر پڑنے کی اُمید ہے۔
بہار کی انتخابی لڑائی دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔ ترازو کا پلڑا ایک ہی طرف جھکا ہوا نہیں ہے بلکہ فی الحال دونوں پلڑے برابر ہیں بلکہ غور سے دیکھیں تو دوسرا پلڑا زیادہ وزنی نظر آ رہا ہے۔ اس پر گزشتہ روز اہم واقعہ یہ ہوا کہ مہا گٹھ بندھن یا ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے لیڈروں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے بیشتر اختلافات دور کرکے متحد ہوجانے کا جو پیغام دیا اُس سے الیکشن پر مثبت اثر پڑنے کی اُمید ہے۔
انڈیا اتحاد نے اس پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اگر بعض اُمور میں اختلاف ہو، جو غیر فطری نہیں ہے، تو وسیع تر اتحاد کا جشن منانے سے ہچکچانا نہیں چاہئے۔ کل کی پریس کانفرنس اسی وسیع تر اتحاد کا جشن تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس اتحاد میں بعض سیٹوں پر اب بھی تنازع ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ایک ہی حلقے میں اس اتحاد کا ایک ہی اُمیدوار نہیں ہے مگر اس کی وجہ سے مشترکہ پریس کانفرنس کو معرض التواء میں نہیں رکھا گیا۔ اس کانفرنس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اتحاد نے سابقہ غلطیوں کو دُہرایا نہیں بلکہ اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ اس کی سب سے بڑی مثال وزیر اعلیٰ کا چہرا ظاہر کردینا ہے۔ مہاراشٹر میں یہ نہیں ہوا تھا۔ یہ پہلے دن سے طے تھا کہ اگر مہا گٹھ بندھن کو اکثریت حاصل ہوئی تو تیجسوی یادو ہی وزیر اعلیٰ ہونگے اُن کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر وزیر اعلیٰ نہیں بنے گا، اس کے باوجود عوامی سطح پر اس کا اعلان ضروری تھا تاکہ سب کچھ واضح رہے۔
یہ اعلان این ڈی اے پر دباؤ ڈالنے کیلئے بھی ضروری تھا جس نے وزیر اعلیٰ کا اپنا چہرا ظاہر کرنے سے احتراز کیا اور اس سوال کو یہ کہہ کر پس پشت ڈالنے کی کوشش کی کہ جو اراکین منتخب ہوکر آئینگے وہی اپنا لیڈر منتخب کرینگے۔ یہ این ڈی اے اور اس کی سب سے بڑی پارٹی یعنی بی جے پی کا طریقہ نہیں ہے۔ ماضی میں اس اتحاد کی ہمیشہ کوشش رہی کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے نام کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے۔ مہا گٹھ بندھن نے تیجسوی کے نام کا اعلان کرکے این ڈی اے کو مخمصے ہی میں نہیں ڈالا، اسے اگنی پریکشا میں بھی ڈال دیا ہے۔ اُس کے پاس نتیش کمار کے علاوہ کوئی دوسرا چہرا نہیں ہے مگر وہ اُن کے محض ’’نیترتوا‘‘ میں لڑنا چاہتی ہے تاکہ اُن کی موجودگی کا فائدہ اُٹھائے اور پھر اپنے کسی لیڈر کو وزیر اعلیٰ بنائے۔ تیجسوی کے نام کے اعلان کے بعد یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ این ڈی اے نتیش کے ’’نیترتوا‘‘ کے اپنے موقف پر قائم رہتی ہے یا اُن کے نام کا اعلان کرنے پر مجبور بھی ہوتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ این ڈی اے کو اُن کے نام کا اعلان کرنا ہی پڑیگا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی بھاری قیمت اس اتحاد کو چکانی پڑسکتی ہے۔ بی جے پی کی خاص بات یہ ہے کہ مخالف حالات میں وہ کسی بھی سمجھوتے میں تامل نہیں کرتی۔ وہ، یہ کہہ کر کہ ہمیں نتیش جی کے ’’سواستھ کی چنتا‘‘ ہے اس لئے کچھ اور سوچ رہے تھے مگر یہ بات عوام تک نہیں پہنچا پائے، شاید ہماری’’تپسیا‘‘ میں کچھ کمی رہ گئی۔
تیجسوی کے نام کے ساتھ ہی مکیش سہنی کو ڈپٹی سی ایم بنانے کا اعلان بھی مہا گٹھ بندھن کو فائدہ پہنچائیگا، اس سے انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) کو قریب کرنے میں مدد ملے گی (بھلے ہی مکیش سہنی زیادہ دن قریب رہنا گوارا نہ کریں )۔ میڈیا گود میں نہ ہوتا تو اسے مہا گٹھ بندھن کا ماسٹر اسٹروک قرار دیتا۔ کانگریس نے نائب وزیر اعلیٰ کی دعویداری میں تحمل برتا مگر اس الیکشن کے ذریعہ بہار میں اُسے حیاتِ نو مل رہی ہے، اِس سے پارٹی کے مخالفین کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔