گھس پیٹھ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کس کی ذمہ داری ہے؟ ایک عام آدمی بھی اس کا جواب جانتا ہے مگر جس کی ذمہ داری ہے شاید وہی لاعلم ہے اور جو لاعلم ہے وہ اپنی لاعلمی کے باوجود یہ علم ضرور رکھتا ہے کہ گھس پیٹھیوں کی شکایت کرتے رہنا چاہئے، طومار باندھنا چاہئے، شور کرنا چاہئے اور واویلہ مچانا چاہئے۔
گھس پیٹھ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کس کی ذمہ داری ہے؟ ایک عام آدمی بھی اس کا جواب جانتا ہے مگر جس کی ذمہ داری ہے شاید وہی لاعلم ہے اور جو لاعلم ہے وہ اپنی لاعلمی کے باوجود یہ علم ضرور رکھتا ہے کہ گھس پیٹھیوں کی شکایت کرتے رہنا چاہئے، طومار باندھنا چاہئے، شور کرنا چاہئے اور واویلہ مچانا چاہئے۔ اس طرز عمل ہی میں تو فائدہ ہے ورنہ غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والے لوگوں کی شناخت کرنا، اُن تک پہنچنا، اُن کے کاغذات کا معائنہ کرنا اور اُن کی ملک بدری کے طویل پروسیس سے گزرنا جہاں بڑا کام ہے وہاں سیاسی اعتبار سے یہ عمل بالکل بے روح بھی ہے، اس سے نہ تو سنسنی پھیلتی ہے نہ ہی ملک کے شہریوں کے دلوں میں ویسا خوف ، تشویش اور نفرت پیدا ہوسکتی ہے جیسا کہ شور مچا کر کی جاتی ہے یا اسے پروپیگنڈہ بنانے سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
برسوں بنگلہ دیشی کے نام پر سادہ لوح بنگالیوں سے باز پرس ہوتی رہی،اُنہیں کاغذات دکھانے کیلئے پولیس اسٹیشن بلایا جاتا رہا۔ یہ صرف آسام یا مغربی بنگال میں نہیں ہوا، ملک کی بین الاقوامی سرحد سے کافی دور مہاراشٹر جیسی ریاست اور اس کی راجدھانی ممبئی میں بھی ایسا ہوا۔ اگر اس نوع کی خبریں ۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں سننے کو ملتی تھیں تو اب بھی گاہے گاہے سنی اور پڑھی جاتی ہیں یعنی مسئلہ تب سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ آج بھی بنگلہ بولنے والوں کی بستی پر یا جہاں وہ لوگ رہتے ہیں ، چھاپے پڑتے رہتے ہیں اسلئے یہ سوال فطری ہے کہ کیا ہماری سرحدی چوکسی ’’فول پروف‘‘ نہیں ہے کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے؟ جو بھی لوگ ملک میں گھس پیٹھ کرتے ہیں وہ دکھائی نہ دینے والے پیراشوٹ کے ذریعہ تو وارد نہیں ہوجاتے؟ ممکن ہے اُنہیں علم ہو کہ غیر قانونی طور پر داخل ہونا ممکن ہے، تو سوال یہ ہے کہ وہ چیز جسے غیر ممکن ہونا چاہئے، اُسے ممکن کون بناتا ہے؟ غیر قانونی نقل و حمل کے خاطیوں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا، اُن کے خلاف سخت ترین کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اور یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم کیوں نہیں کردیا جاتا؟
۲۳؍ جولائی ۲۰۱۴ء کی ایک دستاویز میں ، جو آر ٹی آئی کی ایک عرضی کا جواب ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے، وزارت داخلہ نے جہاں مرکزی حکومت کے ذریعہ قائم کئے گئے اضافی ٹریبونلس کا ذکر کیا ہے تاکہ مشتبہ افراد کے غیر ملکی ہونے کی توثیق یا تردید ہو، وہیں یہ بھی بتایا کہ بارڈر سیکوریٹی فورس کو مستحکم کرنے، اُسے جدید اسلحہ اور آلات فراہم کرنے اور سرحدی چوکیوں کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ تب سے اب تک گیارہ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور مرکز نیز کئی ریاستوں میں ایسی پارٹی کی حکومت ہے جس نے ’’گھس پیٹھیوں ‘‘کا موضوع ہمیشہ اُٹھایا ہے لہٰذا گیارہ سال میں اس مسئلہ کو ختم ہی ہوجانا چاہئے تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مسئلہ کو دانستہ زندہ رکھا جاتا ہے؟
گھس پیٹھیوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں : یا تو ملک میں گھس پیٹھئے نہیں ہیں یا اُن سے دانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے تاکہ وقتاً فوقتاً سیاسی ماحول گرم کیا جائےخاص طور پر تب جب انتخابات قریب ہوں ۔ بہار الیکشن کے پیش نظر اِس موضوع میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ابتداء ہوچکی ہے۔ اگر ایس آئی آر اسی لئے لاگو ہوا تھا تو اب اس موضوع کی گنجائش ہی کہاں ہے؟