• Sat, 15 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نتیجہ آیا، سمجھ میں نہیں آیا!

Updated: November 15, 2025, 1:50 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

بہار کے انتخابی نتائج مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور ہریانہ کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ نہ تو خلافِ توقع ہیں نہ حسب توقع۔ شاذ ونادر ہی یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسی چیز معرض وجود میں آئے جو خلاف ِ توقع رہی ہو نہ ہی حسب ِ توقع۔

INN
آئی این این
بہار کے انتخابی نتائج مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور ہریانہ کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ نہ تو خلافِ توقع ہیں  نہ حسب توقع۔ شاذ ونادر ہی یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسی چیز معرض وجود میں  آئے جو خلاف ِ توقع رہی ہو نہ ہی حسب ِ توقع۔ آپ سمجھ رہے ہوں  گے کہ یہاں  خلاف ِ توقع کا معنی حسب ِ اندیشہ ہے۔ نتائج خلاف توقع اس لئے نہیں  اور حسب اندیشہ اسلئے ہیں  کہ ماضی قریب میں  تین ریاستوں  میں  ایسا ہوا کہ نتائج سے اُمید کچھ اور باندھی گئی تھی، آثار کچھ اور کہہ رہے تھے اور زمینی حقائق کوئی اور داستان سنا رہے تھے مگر نتائج کچھ اور برآمد ہوئے۔
یہی بہار میں  ہواہے۔ نتائج حسب ِتوقع اس لئے نہیں  ہیں  کہ بہار میں  اس بار پہلے سے کہیں  زیادہ عوام کی توجہ مسائل پر تھی۔ وہ ’’پلائن‘‘ کو موضوع بنائے ہوئے تھے، اُن کے نزدیک بے روزگاری سنگین تھی اور اُن کا اجتماعی مطالبہ تھا کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ جو لوگ بیرونِ ریاست مقیم ہیں ، وہ چھٹھ کے موقع پر آئے تو اپنے قیام کو نسبتاً طویل کرلیا تاکہ ووٹ دے کر ہی واپس جائیں ۔ اُن کے طولِ قیام کا مقصد تبدیلی یا پریورتن تھا۔ نوجوانوں  میں  تیجسوی یادو کی مقبولیت ۲۰۲۰ء کی انتخابی مہم سے سوا تھی۔انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز سے قبل راہل گاندھی کی ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئی تھی جس کی وجہ سے نہایت خوشگوار ماحول پیدا ہوا تھا۔ اس کے بعد تیجسوی کی’’بہار ادھیکار یاترا‘‘ اس قابل تھی کہ اسے سونے پر سہاگہ کہا جاتا۔ وہ تمام حلقے جہاں  مسلم ووٹ کثیر تعداد میں  ہیں  اُنہوں  نے پولنگ میں  جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس کا فائدہ مہا گٹھ بندھن کو ملنا ہی تھا۔ یہ اور ایسی کئی وجوہات کی بناء پر دو طرح کی تھیوریز تھیں ۔ ایک یہ کہ ناراض نتیش کی پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھرے گی کیونکہ خواتین کو دس ہزار روپے کا انعام بہت اہم ہے۔ دوسری تھیوری یہ تھی کہ تیجسوی کی پارٹی سب سے بڑی جماعت ہوگی۔ انتخابی نتائج بتا رہے ہیں  کہ نہ تو یہ تھیوری درست ثابت ہوئی نہ ہی وہ تھیوری بلکہ الگ ہی تھیوری اُبھری اور ایسی پارٹی سنگل لارجیسٹ بنی جس کا بہار میں  اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ حالیہ دِنوں  میں  بہار میں  کافی وقت گزارنے والے سیاسی مبصرین اور صحافیوں  کا کہنا ہے کہ عوامی جذبات و احساسات کچھ اور تھے نتائج کچھ اور ہیں ۔ بتانے کی ضرورت نہیں  کہ کل کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائدہ تو جے ڈی یو کا بھی ہوا ہے مگر سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کا ہے۔
کیا بہار نے یہ سوچ کر ووٹ دیا کہ جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بہت موقع دیا جاچکا ہے۔ ان سے پہلے کانگریس کو تسلسل کے ساتھ اقتدار سونپا گیا ہے اس لئے اب بی جے پی کو کمان سونپنی چاہئے؟ ہم یہ نہیں  کہہ سکتے کہ اہل بہار نے ایسا سوچا ہوگا کیونکہ اُن کے سوچنے سمجھنے کا انداز الگ ہے۔ اب سے پہلے اُنہوں  نے کبھی بی جے پی کی حکومت بننے نہیں  دی جس کا نتیجہ تھا کہ اس پارٹی کو نتیش کمار کی ضرورت رہی۔ یہاں  کے لوگوں  کو فرقہ وارانہ سیاست سے کبھی دلچسپی نہیں  رہی۔ ہندوتوا نے کبھی اہل بہار کو متاثر نہیں  کیا۔ وزیر اعظم مودی نے اس ریاست کو خصوصی ریاست کا درجہ بھی نہیں  دیا۔ بے روزگاری اور پیپر لیک کی وجہ سے نوجوان پریشان ہیں ۔ ریاست میں  بی جے پی کا کوئی ایسا لیڈر بھی نہیں  ہے جسے پارٹی کا چہرا کہا جاسکے۔ پارٹی نے وزارت اعلیٰ کے اُمیدوار کا اعلان بھی نہیں  کیا تھا۔ حالیہ دنوں  میں  بی جے پی اور جے ڈی یو میں  دراڑ بھی پڑ چکی تھی۔ نتیش بھی ناراض تھے ان باتوں  کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ نتیجہ تو آگیا مگر سمجھ میں  نہیں  آیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK