بہار کا الیکشن دلچسپ موڑ پر ہے۔ اس موڑ پر جو مجمع دکھائی دے رہا ہے اس میں ووٹ چوری کے سنگین الزامات میں گھرا ہوا الیکشن کمیشن ہے جس کے پاس ہر سوال اور الزام کا ایک ہی جواب ہے کہ سوال غلط اور الزام بے بنیاد ہے، اسی میں نتیش کمار ہیں جو این ڈی اے میں رہتے ہوئے این ڈی اےسے اتنا ناراض ہیں کہ وزیراعظم کی کسی ریلی اور جلسے میں شریک نہیں ہوئے،
بہار کا الیکشن دلچسپ موڑ پر ہے۔ اس موڑ پر جو مجمع دکھائی دے رہا ہے اس میں ووٹ چوری کے سنگین الزامات میں گھرا ہوا الیکشن کمیشن ہے جس کے پاس ہر سوال اور الزام کا ایک ہی جواب ہے کہ سوال غلط اور الزام بے بنیاد ہے، اسی میں نتیش کمار ہیں جو این ڈی اے میں رہتے ہوئے این ڈی اےسے اتنا ناراض ہیں کہ وزیراعظم کی کسی ریلی اور جلسے میں شریک نہیں ہوئے، پھر تیجسوی یادو ہیں جو روزانہ پندرہ سترہ جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں ، انہیں عوام کی زبردست حمایت مل رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ رائے دہندگان انہیں وزیر اعلیٰ بنا کر ہی دم لیں گے۔ اس مجمع میں کانگریس بھی ہے جس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو میدان میں اتارا ہے۔ کانگریس راہل گاندھی کی ووٹر ادھیکار یاترا کے بعد ہی سے کافی پرجوش ہے۔ اس بار یہ پارٹی کم سیٹوں پر شاید اس ارادے سے رضامند ہوگئی کہ سیٹیں کم لے کر اسٹرائیک ریٹ بڑھائیں گے اور پہلے سے زیادہ اُمیدواروں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اس مجمع میں سماج وادی پارٹی بھی ہے جس نے مہا گٹھ بندھن کیلئے قربانی دی، اپنا کوئی امیدوار نہیں اتارا مگر اس کے لیڈر اکھلیش سنگھ یادو اتحاد کی فتح کیلئے بہار کے مختلف اضلاع میں انتخابی جلسے منعقد کررہے ہیں ۔ ایسا شاید پہلی بار ہو رہا ہے۔ اکھلیش اب تک کم و بیش دو درجن ریلیاں کر چکے ہیں ۔ ان کے ساتھ ایودھیا کے رکن پارلیمان اودھیش سنگھ کی موجودگی کی اپنی معنویت ہے۔ مہا گٹھ بندھن نے اکھلیش کی ریلیوں میں امڈنے والی بھیڑ کو دیکھ کر ان سے مزید چند روز میدان میں ڈٹے رہنے کی درخواست کی ہے۔ بہار اسمبلی الیکشن کے دلچسپ موڑ پر موجود اس مجمع میں بائیں بازو کی پارٹیاں بھی ہیں جن کی اپنی ساکھ ہے، کیڈر ہے اور موضوعات و مسائل کی بنیاد پر عوام سے گفتگو کی اپنی روایت ہے۔ اس مجمع میں بی جے پی بھی ہے جو سابقہ اسمبلی انتخاب میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اور اب اس کا دعویٰ ہے کہ فتح اسی کی ہوگی۔ گزشتہ دنوں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے این ڈی اے کے بارے میں نہیں ، بی جے پی کے بارے میں دعویٰ کیا کہ اسے ایک سو ساٹھ سیٹیں ملیں گی اور وہی حکومت بنائے گی۔ زمینی حقائق اور انتخابی ماحول کچھ اور کہہ رہا ہے مگر ایک سو ساٹھ سیٹوں سے فتح حاصل کرنے کا یہ دعویٰ کسی اور جہان کی خبر دے رہا ہے۔ یہ کہنے کی جرأت کسی میں نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ سب کے سامنے مدھیہ پردیش، ہریانہ اور مہاراشٹر کی مثالیں ہیں ۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کی مبینہ سازباز ناکام ہوئی تب ہی مہا گٹھ بندھن کو کامیابی مل سکتی ہے۔ شاید اسی لئے مہا گٹھ بندھن کی پارٹیاں ، جن کے وسائل محدود ہیں ، کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتیں ۔ انہوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے تاکہ انتخابی دھاندلیوں کے بڑے خطرے کا مقابلہ عوام کی غیر معمولی حمایت سے کیا جائے۔ اس وقت یہ غیر معمولی حمایت کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس پورے منظرنامے کی خاص بات یہ ہے کہ گھس پیٹھئے کا موضوع چل نہیں رہا ہے، ہندوتوا کی دھار کند ہے، مودی لہر مفقود ہے، یوگی پپو، ٹپو، اپو کہہ کر انڈیا الائنس کے تین جواں سال لیڈروں کا مذاق اڑا رہے ہیں مگر مذاق اڑ نہیں پارہا ہے۔ بہار کا یہ الیکشن بالخصوص انتخابی دھاندلیوں کے انکشافات اور ایس آئی آر کی وجہ سے پورے ملک کیلئے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور سب کو نتائج کا بے چینی سے انتظار ہے جس میں اب محض چند روز باقی ہیں ۔