مہاراشٹر اسمبلی میں وزیر صحت پرکاش اَبِتکر کا یہ بیان ہر خاص و عام کیلئے چشم کشا ہونا چاہئے کہ ریاست کا ایک ضلع (ہنگولی) ایسا ہے جہاں پر ۱۴؍ ہزار ۵؍ سو خواتین میں سرطان کی علامات پائی گئی ہیں ۔
EPAPER
Updated: July 12, 2025, 1:36 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مہاراشٹر اسمبلی میں وزیر صحت پرکاش اَبِتکر کا یہ بیان ہر خاص و عام کیلئے چشم کشا ہونا چاہئے کہ ریاست کا ایک ضلع (ہنگولی) ایسا ہے جہاں پر ۱۴؍ ہزار ۵؍ سو خواتین میں سرطان کی علامات پائی گئی ہیں ۔
مہاراشٹر اسمبلی میں وزیر صحت پرکاش اَبِتکر کا یہ بیان ہر خاص و عام کیلئے چشم کشا ہونا چاہئے کہ ریاست کا ایک ضلع (ہنگولی) ایسا ہے جہاں پر ۱۴؍ ہزار ۵؍ سو خواتین میں سرطان کی علامات پائی گئی ہیں ۔ اس ضلع میں یوم خواتین (۸؍ مارچ) سے ایک مہم شروع کی گئی تھی جس کے تحت خواتین کی طبی جانچ کا بیڑا اُٹھایا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ مہم قابل ستائش ہے مگر اس سے جو تصویر اُبھر رہی ہے وہ ڈرانے والی ہے۔ مہم کے دوران ۱۴؍ ہزار ۵۴۲؍ خواتین مذکورہ علامات کی حامل پائی گئیں ۔
آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ اِتنی بڑی تعداد ریاستی محکمہ ٔ صحت کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے۔ اب اسے دو محاذوں پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ ایک تو یہ کہ ایسی مہم ریاست کے دیگر اضلاع میں بھی چلائی جائے اور دوسری یہ کہ سرطان کی علامات کے اسباب کا پتہ لگایا جائے۔
سرطان جیسی مہلک بیماریوں کے دو بڑے اسباب ہوتے ہیں ۔ ایک ہے طبی نقطۂ نظر سے کھانے پینے، سونے جاگنے کی غلط عادات (لائف اسٹائل) اور دوسری ہے ناقص غذا، آلودہ پانی، آلودہ فضا۔ قصبات اور دیہات کی آبادی کا ہر فرد جلدی سونے اور صبح سویرے جاگنے کا عادی ہے اس لئے سونے جاگنے کے اوقات اور کافی نیند وہاں کا مسئلہ نہیں ہوسکتا جو کہ بنیادی طور پر شہری مسئلہ ہے۔ چونکہ وہاں کے لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں اور چلنا پھرنا بھی اُن کا روزمرہ کا معمول ہوتا ہے اس لئے اُن کی خاطرخواہ ورزش بھی ہوتی ہے۔ اُنہیں بھوک بھی کھل کر لگتی ہے اس لئے کھانے پینے کی غلط عادات اور نظام ِ ہضم کی خرابی اُن کا مسئلہ نہیں ۔ رہ جاتا ہے یہ نکتہ کہ وہ جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ کتنا صحت بخش ہے اور کیا اس کا متوازن غذا سے دور کا بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی طرح وہاں کا پینے کا پانی کتنا صاف اور صحت بخش ہے؟ جب تک اِن باتو ں کی جانچ نہیں ہوگی محکمۂ صحت مقامی آبادی کے طبی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
قصبات اور دیہات کی آبادیوں کو جن ذرائع سے پینے کا پانی میسر آتا ہے اُن کی جانچ سے عقدہ کھل سکتا ہے کہ کہیں آلودہ اور زہریلے اثرات کا حامل پانی تو اُن کی صحت کو برباد نہیں کررہا ہے؟ اب یہ شکایت اکثر جگہوں سے ملنے لگی ہے کہ زیر زمین پانی آلودہ ہے، اس میں زہریلے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح تالابوں اور ندیوں کا پانی بھی صحت بخش نہیں رہ گیا ہے۔ فضائی آلودگی بھی بڑا مسئلہ ہے جو کل تک دیہاتو ں میں نہیں تھا جہاں کی آب و ہوا کو تروتازہ مانا جاتا تھا مگر اب دیہاتوں کے آس پاس موجود صنعتی علاقے فضا کو متاثر کررہے ہیں ۔ ہنگولی کی خواتین کی جس طرح طبی جانچ ہوئی ہے اُسی طرح اُس ضلع کی فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور وہاں دستیاب غذائی اجناس کی بھی جانچ کی جانی چاہئے کہ وہ کتنی صحت بخش ہیں ۔ ہنگولی نے محکمۂ صحت کو ہدف دیا ہے۔ ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ دیگر اضلاع کی یہ کیفیت نہ ہو مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ دیگر اضلاع کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہو؟ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ۲۰۲۵ء میں ہندوستان ۱۳۰؍ ویں مقام پر ہے۔ اس انڈیکس میں مقام تفویض کرنے سے قبل جن باتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اُن میں سے ایک صحت بھی ہے اور ہمارا ۱۳۰؍ ویں مقام پر ہونا ہی بہت کچھ سمجھا دیتا ہے۔ملک میں صحت عامہ کے تئیں سرکاری غفلت کا شاکی ہونے کے باوجود ہم ہنگولی میں صحت مہم کی داد دیتے ہیں مگر اتنا ہی کافی نہیں ہے ۔