Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہوائی اڈوں پر ڈی جی سی اے کی کڑی نگرانی، فضائی حفاظت سے متعلق کئی کوتاہیاں ظاہر

Updated: June 25, 2025, 10:03 PM IST | New Delhi

ملک کے بڑے ہوائی اڈوں پر ڈی جی سی اے کی کڑی نگرانی کے دوران ایوی ایشن سیفٹی سے متعلق کئی کوتاہیاں ظاہر ہوئیں، فضائی شعبے میں حفاظتی اقدامات کو `مضبوط بنانےکیلئے کیے گئے اس مشق کا انعقاد احمد آباد میں۱۲؍ جون کو ہونے والے فضائی حادثے کے چند دن بعد کیا گیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) نے منگل کو کہا کہ اس نے دہلی اور ممبئی سمیت بڑے ہوائی اڈوں پر کی گئی نگرانی کے دوران کئی خامیاں پائی ہیں، جن میں ہوائی جہازوں پر پہلے رپورٹ شدہ خرابیوں کے دوبارہ ظاہر ہونے کے واقعات اور مناسب ورک آرڈر کی پابندی نہ کرنا شامل ہے۔ سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے ۱۹؍ جون کو فضائی شعبے کا جائزہ لے کر حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانے کا حکم دیا تھا۔ یہ احمد آباد میں۱۲؍ جون کو ہونے والے اس فضائی حادثے کے بعد آیا جس میں۲۷۵؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔منگل کو ایک بیان میں، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) نے کہا کہ اس کی دو ٹیموں نے ’’دہلی اور ممبئی سمیت بڑے ہوائی اڈوں پر رات اور صبح سویرے کے اوقات میں جامع نگرانی کی۔‘‘اس نے کہا کہ پرواز کے آپریشنز، فضائی صلاحیت (ایئر ورتھی نیس)، ریمپ حفاظتی اقدامات، فضائی ٹریفک کنٹرول، مواصلات، نیوی گیشن اور نگرانی کے نظام، اور پرواز سے قبل تشخیصات جیسے کئی اہم شعبوں کا جائزہ لیا گیا۔سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے کہا کہ اس نے کئی ایسے معاملات پائے جہاں درج شدہ خرابیاں ہوائی جہاز پر بار بار ظاہر ہوئیں، جو ناکافی نگرانی اور ناکافی اصلاحی کارروائی کی نشاندہی کرتی ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ زمین پر استعمال ہونے والے سامان جیسے سامان لے جانے والی ٹرالیاں اور بڑے سامان کے لوڈر ناقابل استعمال پائے گئے۔

یہ بھی پڑھئے: ہندوستانی پائلٹ شبھانشو شکلا کے ساتھ ایکسیئوم ۴؍ خلاء میں روانہ

ڈی جی سی اے نے تھرسٹ ریورسر سسٹم کے ناقابل استعمال ہونے، اور فلپ سلیٹ لیورز کے لاک نہ ہونے کے واقعات کی نشاندہی کی۔ہوائی جہاز پر تھرسٹ ریورسر سسٹم لینڈنگ کے بعد جہاز کو سست کرنے میں مدد کے لیے اپنے انجنوں کے اخراج کو ریورس کرتا ہے۔ فلپ سلیٹ لیور ہوائی جہاز کے لیڈنگ ایج سلیٹس اور ٹریلنگ ایج فلپس کے آپریشن کو کنٹرول کرتا ہے، جواٹھانے اور کھینچنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے کہا کہ ہوائی جہاز کی دیکھ بھال کے انجینئر کے ذریعے ہوائی جہاز کی دیکھ بھال کی دستی (ایئر کرافٹ مینٹیننس مینوئل) کے مطابق حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں۔ اس نے مزید کہا کہ ’’ہوائی جہاز کے نظام کے ذریعے تیار کردہ خرابیوں کی رپورٹ تکنیکی لاگ بک میں درج نہیں پائی گئیں۔‘‘
ڈی جی سی اے نے کہا کہ متعدد لائف ویسٹس (حفاظتی جیکٹس) ان کی مخصوص نشستوں کے نیچے صحیح طریقے سے محفوظ نہیں تھیں، اور یہ کہ "دائیں ہاتھ کی جانب ونگ لیٹ کی نچلی بلیڈ پر رگڑ سے بچانے والی ٹیپ خراب پائی گئی۔‘‘اس نے یہ بھی کہا کہ ایک ہوائی اڈے پر رن وے کی سینٹر لائن مارکنگ ماند پڑ گئی تھی اور تیز رفتار ایگزٹ ٹیکسی وے پر سبز سینٹر لائٹس یک سمت نہیں تھیں۔ ’’ ہوائی اڈے کے ارد گرد کئی نئی تعمیرات کے باوجود گزشتہ تین سال سے رکاوٹوں سے متعلق اعداد و شمارکی تجدید نہیں کی گئی تھی اور کوئی سروے نہیں کیا گیا ۔‘‘سول ایوی ایشن ریگولیٹر نے مزید کہا کہ ریمپ ایریا میں کئی گاڑیاں اسپیڈ گورنر جو ان کی رفتار کو قابو اور محدود کرنے کے لیے بنائے گئے آلات ہیں کے بغیر پائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان گاڑیوں کو واپس لے لیا گیا اور ڈرائیوروں کو معطل کر دیا گیا۔اتھارٹی نے کہا کہ ایک سمیولیٹر کا معائنہ کیا گیا اور وہ ہوائی جہاز کی تشکیل (ایئر کرافٹ کنفیگریشن) سے مماثل نہیں پایا گیا۔ایک اور معاملے میں، شیڈولڈ کیریئر کی ایک گھریلو پرواز گھسے ہوئے ٹائروں کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی۔ڈی جی سی اے نے کہا کہ ’’نگرانی کے دوران مشاہدہ کی گئی تمام تفصیلات متعلقہ آپریٹرز کو سات دن کے اندر ضروری اصلاحی اقدامات کرنے کے لیے بھیج دی گئی ہیں،اور نظام میں خطرات کا پتہ لگانے کے لیے نگرانی جاری رہے گی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: پہلگام میں ایک بار پھر سیاحوں کی چہل پہل، ہوٹلوں میں بھاری بکنگ

یاد رہے کہ ۱۲؍ جون کو ایر انڈیا کا بوئنگ ۷۸۷؍ ڈریم لائنر ہوائی جہاز، جو احمد آباد سے لندن کے گیٹ وک ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوا تھا، ٹیک آف کے محض۳۳؍ سیکنڈ بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ اسے دنیا کے دہائی کے بدترین فضائی حادثے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ہوائی جہاز میں۲۴۲؍ افراد سوار تھے۔حادثے کے بعد، ڈی جی سی اے نے کہا کہ اس نے ایر انڈیا کے بوئنگ۷۸۷؍ ہوائی جہازوں کے بیڑے کے معائنے کیے تھے، اور مزید کہا کہ اس میں کوئی بڑا حفاظتی خدشہ سامنے نہیں آیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK