صدر جو اپنے اس نعرے پر الیکشن جیتا تھا کہ کسی سے جنگ نہیں کرے گا اور دوسروں کی جنگ تو ہرگز نہیں لڑے گا کیونکہ جنگوں سے امریکہ کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور اسے امریکہ کو پھر سے گریٹ بنانا ہے، اس نے امریکہ میں موجود یہودی لابی کے دباؤ میں آکر اپنے انتخابی وعدے کی خود ایسی تیسی کردی اور ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں کود پڑا۔
وہ صدر جو اپنے اس نعرے پر الیکشن جیتا تھا کہ کسی سے جنگ نہیں کرے گا اور دوسروں کی جنگ تو ہرگز نہیں لڑے گا کیونکہ جنگوں سے امریکہ کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور اسے امریکہ کو پھر سے گریٹ بنانا ہے، اس نے امریکہ میں موجود یہودی لابی کے دباؤ میں آکر اپنے انتخابی وعدے کی خود ایسی تیسی کردی اور ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں کود پڑا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہوا ہے کہ امریکی اراکین پارلیمان اسے روک رہے تھے، روس اور چین نے بالواسطہ طریقے سے اس پر کافی دباؤ ڈالا تھا اور دیگر ملکوں نے بھی اسے باز رہنے کی صلاح دی تھی۔ جنگ میں شمولیت کے ذریعہ ٹرمپ اپنے کم از کم ایک بیان پر قائم رہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں ، وہ ایک منٹ پہلے سوچتے ہیں اور دوسرے منٹ میں کچھ کر گزرتے ہیں ۔ اس وقت کے حالات ان کے پیش رو جارج بش سینئر کے دور کے حالات نہیں ہیں جنہوں نے عراق پر جنگ مسلط کی تھی نہ ہی جارج بش جونیئر کے دور کے حالات ہیں جنہوں نے افغانستان کو تہس نہس کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کے خلاف ٹیرف کی وجہ سے ناراضگی ہے، تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی وجہ سے برہمی ہے، الگ الگ ملکوں کو ٹرمپ کی بیان بازی کی وجہ سے بے چینی ہے، الگ الگ فورموں (مثلاً برکس) پر لعن طعن کی وجہ سے انتشار ہے اور خود امریکی عوام میں ٹرمپ کی تلون مزاجی کی وجہ سے اضطراب ہے۔ یہ سابقہ ادوار کے حالات نہیں ہیں مگر ٹرمپ نے، جو جنگ میں شامل ہونے نہ ہونے کے تعلق سے تذبذب میں تھے، بہرحال ہار مان لی۔ ماہرین متنبہ کررہے تھے کہ اگر امریکہ نے پرائی آگ میں اپنا ہاتھ جلانے کی کوشش کی تو ہاتھ ہی نہیں جلے گا ان کا وہاں سے نکلنا مشکل ہو جائیگا مگر ٹرمپ نہیں مانے۔ ان کے تعلق سے اب تو یہ بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ انہیں جتنے زیادہ لوگ کسی عمل سے منع کرینگے وہ اس کے ارتکاب میں اتنی عجلت سے کام لیں گے۔ یہ عجلت نہیں تو کیا ہے کہ جنگ میں شامل ہونے نہ ہونے کے تعلق سے انہوں نے پندرہ دن کا وقت لیا تھا مگر دو ہی دن میں فیصلہ کرلیا۔ اس سے ایران کا نقصان بڑھے گا مگر اسرائیل کو بھی زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایران کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ٹرمپ کیلئے بہتر یہ تھا کہ اسرائیل کو روکتے جو بلا اشتعال حملہ آور ہوا، پھر ایرانی قیادت سے گفتگو کرتے اور پھر مصالحت کی کوشش کرتے۔ تب انہیں امن کے سفیر کے طور پر دیکھا جاتا اور ممکن تھا کہ نوبیل انعام برائے امن بھی مل جاتا جس کیلئے وہ بے چین ہیں اور ایک طرح کی لابئنگ بھی کررہے ہیں ۔ چونکہ ہم نے نوبیل انعام اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو بھی ملتے دیکھا ہے اس لئے ایران کیخلاف جنگ میں شمولیت کے باوجود ٹرمپ کو یہ ایوارڈ مل جائے تو ہمیں حیرت نہیں ہوگی۔
امریکہ کی تاریخ ہے کہ اس نے آج تک کوئی جنگ نہیں جیتی ہے، تو کیا اس جنگ میں مدد دے کر وہ اسرائیل کو فاتح بنا دیگا؟ جی نہیں ، امریکہ کو یہ جنگ بھی ہارنی ہے کیونکہ نہ تو اسرائیل میں جنگ جاری رکھنے کی اہلیت ہے نہ ہی امریکہ، جسے پھر سے گریٹ بننا ہے، زیادہ دن ٹھہر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں رائے عامہ حکمرانوں کے خلاف ہے جو اب مزید بڑھے گی اور نیتن یاہو اور ٹرمپ کو قدم پیچھے لینے پڑیں گے۔ کیلیفورنیا میں پچھلے دنوں جو کچھ ہو رہا تھا وہ تھم گیا ہے ایسا نہیں ہے اور اسرائیل میں شدید بے چینی خبروں کی پابندی کے باوجود منظر عام پر ہے۔