حکمراں جماعت گزشتہ کئی برسوں سے ۲۰۴۷ء کی بات کررہی ہے۔ اسی سال یوم آزادی پر لال قلعہ سے اپنے روایتی خطاب میں وزیراعظم مودی نے ۲۰۴۷ ء تک وکست بھارت کا روڈ میپ پیش کیا اور بتایا تھا کہ خود انحصاری، جدت و ندرت اور شہریوں کی بااختیاری کے ذریعہ اس ہدف کو پایا جا سکتا ہے۔
حکمراں جماعت گزشتہ کئی برسوں سے ۲۰۴۷ء کی بات کررہی ہے۔ اسی سال یوم آزادی پر لال قلعہ سے اپنے روایتی خطاب میں وزیراعظم مودی نے ۲۰۴۷ ء تک وکست بھارت کا روڈ میپ پیش کیا اور بتایا تھا کہ خود انحصاری، جدت و ندرت اور شہریوں کی بااختیاری کے ذریعہ اس ہدف کو پایا جا سکتا ہے۔ خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے انہوں نے ٹیکنالوجی انڈسٹری کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ جب ہم دوسرے ملکوں پر انحصار کرتے ہیں تو ہماری صلاحیتوں پر حرف آتا ہے۔ انہوں نے دوسروں پر انحصار کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسے عادت بنا لیا گیا تو خود پر انحصار کا عزم کمزور ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان اسی سال سیمی کنڈکٹر چپ تیار کر لے گا، اس کے ساتھ ہی نجی کمپنیوں کیلئے نیوکلیئر سیکٹر کے دروازے کھولے جائینگے جس سے توانائی اور تکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی مواقع پیدا ہونگے۔
وکست بھارت کیلئے روڈ میپ برائے ۲۰۴۷ء سے متعلق محولہ بالا تقریر کو سامنے رکھئے جو لال قلعہ سے کی گئی اور اُس تقریر کو بھی سامنے رکھئے جو وزیراعظم نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں ’’وندے ماترم‘‘ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کی، جس میں نہرو کے ۱۹۳۷ء کے خط کا حوالہ دیا گیا۔ دونوں تقریروں کا موضوع ہندوستان ہے مگر دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں متضاد ہیں ۔ ایک میں مستقبل سازی کا عزم ہے اور دوسری میں ماضی پرستی کا رجحان۔ وطن عزیز کے عوام سے پوچھا جائے کہ ملک میں ۲۰۴۷ء کی بات ہونی چاہئے یا ۱۹۳۷ء کی تو ہمیں یقین ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب ۲۰۴۷ء کے حق میں رائے دینگے یعنی ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے کے بجائے مستقبل پر نگاہیں مرکوز کرنے کی آرزو کا اظہار ہوگا۔
وہ ملک ماضی کی طرف دیکھ بھی کیسے سکتا ہے جس کے شہریوں میں نوجوانوں کی آبادی دنیا کے کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی سے زیادہ ہے۔ اسے تو مستقبل کے تانے بانے ہی سے فرصت نہیں ملنی چاہئے۔ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ ہم ۲۰۴۷ء کو ہدف بنائیں اور پھر کسی بہانے سے ۱۹۳۷ء کو درمیان میں لے آئیں ۔ مانا کہ ’’وندے ماترم‘‘ کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہوئے ہیں مگر ڈیڑھ سو سال پیچھے جاکر بحث کرنے سے ایسا کیا مل جائیگا جو اب تک نہیں ملا اور جس سے آئندہ ڈیڑھ سو سال تک فائدہ ہو گا؟ ڈیڑھ سو سال کی اپنی اہمیت ہے مگر جو واقعہ یا سلسلۂ واقعات ماضی کا حصہ ہیں اُنہیں مورخوں پر چھوڑنا چاہئے۔ اس موضوع پر کتنے ہی مورخین نے لکھا ہوگا، کتابیں تصنیف کی ہوں گی جو پڑھی نہیں گئیں ۔ کچھ کام اسکالرس کے ہوتے ہیں ۔ عوام کی وہ ترجیحات نہیں ہوسکتیں جو اسکالرس کی ہوتی ہیں ۔ آج ملک کی نوجوان آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ حصولِ ملازمت کا ہے۔ اسی طرح سماج کا سب سے بڑا مسئلہ شہری سہولتوں کا ہے، بڑھتے جرائم کا ہے، سائبر سیکوریٹی کا ہے، انفراسٹرکچر کا ہے اور بنیادی، ثانوی، اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیم کا ہے۔ انڈیگو کے تکنیکی اور غیر تکنیکی مسائل نے پچھلے دنوں شہری ہوا بازی کی ہوا نکال دی، فضائی آلودگی نے تازہ ہواکی راہ بند کردی اور سیاستداں ایک دوسرے کی ہوا نکال رہے ہیں ۔ افسوس کہ ہم نہایت خستہ ’’حال‘‘ میں ’’مستقبل‘‘ پر نگاہ رکھ کر ’’ماضی‘‘ کی طرف لوَٹ رہے ہیں ، شاید ہم ماضی کے تئیں مخلص ہیں نہ ہی حال و مستقبل کےتئیں ۔