Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُدھو، راج کے یکجاہونے کا معنی

Updated: July 08, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ورلی کے این ایس سی آئی ڈوم میں اُدھو اور راج ٹھاکرے کی رَیلی، جو مہاراشٹر کی درس گاہوں میں ہندی کو لازم کئے جانے کے خلاف بطور احتجاج منعقد کی جانی تھی، سرکاری فرمان کے واپس ہونے کے بعد جشن فتح میں تبدیل کردی گئی تھی

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ورلی کے این ایس سی آئی ڈوم میں  اُدھو اور راج ٹھاکرے کی رَیلی، جو مہاراشٹر کی درس گاہوں  میں  ہندی کو لازم کئے جانے کے خلاف بطور احتجاج منعقد کی جانی تھی، سرکاری فرمان کے واپس ہونے کے بعد جشن فتح میں  تبدیل کردی گئی تھی، ایک سے زائد وجوہات کی بناء پر غیر معمولی قرار دی جاسکتی ہے۔ اول تو یہ کہ اس میں  شرکاء یعنی دونوں  پارٹیوں  (شیو سینا اُدھو اور مہاراشٹر نونرمان سینا) کے اہلکاروں  اور حامیوں  کی تعداد اس قدر تھی کہ ڈوم کھچاکھچ بھر گیا تھا اور لوگوں  کو باہر کھڑے رہ کر ٹی وی اسکرینوں  پر اکتفا کرنا پڑا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ بیس سال کی رنجش اور دوری کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اُدھو اور راج عوام کے سامنے ایک ساتھ آئے۔ ہرچند کہ دونوں  پارٹیوں  کے انضمام کی نہ تو کوئی بات ہوئی ہے نہ ہی اس کا امکان نظر آتا ہے، بہت ہوا تو یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں  پارٹیاں  مل کر آئندہ انتخابات لڑیں  بالخصوص بی ایم سی اور مہاراشٹر کی دیگر کارپوریشنوں  اور نگر پالیکاؤں  کے الیکشن میں ، مگر اس ملاپ کی وجہ سے پارٹی کارکنان میں  زبردست جوش و خروش تھا جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ شیو سینا (اُدھو) اور ایم این ایس کے حامی اس دن کا طویل عرصے سے انتظار کررہے تھے۔ تیسری بات یہ کہ مہاراشٹر میں  بلدیاتی انتخابات سے قبل اتحاد کا یہ پُرزور مظاہرہ پارٹی کیڈر کو نئی طاقت عطا کرنے کیلئے کافی ہوسکتا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس سے شندے سینا کی توقعات پر اوس پڑسکتی ہے   جس کی کارکردگی حالیہ انتخابات میں  تو قع کے قطعی خلاف تھی۔ شندے سینا ۲۰۲۴ء کے اسمبلی انتخابات میں  ۵۷؍ سیٹیں  جیت کر دوسری پارٹی بنی جبکہ سمجھا جارہا تھا کہ شندے گروپ سے مہاراشٹر کے عوام ناراض ہیں  اس لئے وہ ووٹ کے ذریعہ انتقام لینگے۔ ایسا نہیں  ہوا۔ اس سے اُدھو کی پارٹی کو شدید دھچکا لگا اور اس کے ہاتھ صرف بیس سیٹیں  لگیں ۔ راج ٹھاکرے کی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں  ملی۔ لوک سبھا الیکشن میں  بھی اس کی کارکردگی صفر ہی تھی، اس کے باوجود اُدھو اور راج کا ایک ساتھ آنا جہاں  جذباتی طور پر مراٹھی ووٹ بینک کیلئے اُمید افزاءہے وہیں    نئی سیاسی مساوات کی تمہید بھی ہوسکتا ہے۔ پانچویں  بات یہ ہے کہ دونوں  ٹھاکرے نے من مٹاؤ دور کرکے عوام کے درمیان ایک ساتھ آنے کیلئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ ’’مراٹھی اسمتا‘‘ اور ’’مراٹھی مانوس‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے دونوں  پارٹیاں بالخصوص شیو سینا (اُدھو) اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لینے میں  کسی حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں ۔ چھٹی بات یہ ہے کہ اس ریلی میں  این سی پی (شرد پوار) کے لیڈران (سپریہ سلے اور جیتندر اہواڈ) بھی شریک ہوئے جس سے یہ سیاسی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں  ایم این ایس کو مہا وکاس اگھاڑی میں  شامل کرنے پر کوئی تنازع ہوا اور کانگریس نے اگھاڑی سے علاحدگی اختیار کی تو اُس صورت میں  ایک امکان یہ بھی ہوگا کہ شیو سینا (اُدھو) اور ایم این ایس کو این سی پی (شرد) کا ساتھ مل جائے۔ ساتویں  بات یہ ہے کہ ایکناتھ شندے کی حمایت کرنے والے جن شیو سینک اراکین اسمبلی نے اپنی مین پارٹی سے بغاوت کی تھی اُن کا تنقیدی تذکرہ بہت خفیف سا تھا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر اس گروپ کے اراکین اُدھو اور راج کو یکجا اورمتحد دیکھ کر پالہ بدلنا چاہیں  تو اُنہیں  واپسی کا موقع دیا جائے۔ ان سات وجوہات کی بناء پر یہ ریلی اہم تھی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس کی کامیابی کو کس طرح بھنایا جاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK