Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوکرین اور مکڑی کا جال

Updated: June 05, 2025, 8:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وہ ملک، جس کو روس کے سامنے بے حد کمزور تصور کیا جارہا تھا، اُس میں اتنی صلاحیت و مہارت کہاں سے آگئی کہ اس نے روس کی غیر معمولی طاقت کو نیچا دکھاتے ہوئے اس کی حدود میں کئی سو نہیں کئی ہزار کلومیٹر اندر جاکر اس کے اہم فضائی ٹھکانوں اور جنگی جہازوں کو اتنا نقصان پہنچایا کہ روس تلملا گیا اور کچھ کر نہیں پایا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وہ ملک، جس کو روس کے سامنے بے حد کمزور تصور کیا جارہا تھا، اُس میں  اتنی صلاحیت و مہارت کہاں  سے آگئی کہ اس نے روس کی غیر معمولی طاقت کو نیچا دکھاتے ہوئے اس کی حدود میں  کئی سو نہیں  کئی ہزار کلومیٹر اندر جاکر اس کے اہم فضائی ٹھکانوں  اور جنگی جہازوں  کو اتنا نقصان پہنچایا کہ روس تلملا گیا اور کچھ کر نہیں  پایا۔ کوئی سوچ بھی نہیں  سکتا تھا کہ یوکرین غیر معمولی مہارت کا اچانک مظاہرہ کریگا  اور ہر خاص و عام کو انگشت بدنداں  کردیگا۔ خود ماسکو نے نہیں  سوچا تھا کہ یوکرین ایسا کچھ کرسکتا ہے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ جن ڈرونس نے روس میں  تباہی مچائی وہ ایک سال، چھ ماہ اور نو دِن میں  تیار کئے گئے ہیں ۔ یہ تو اور بھی زیادہ حیران کن بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین ایک طرف روسی حملوں  کے خلاف جان و مال کے نقصان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش بھی کررہا تھا اور ڈرون بھی تیار کررہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پاس اتنا سرمایہ تھا؟ 
معلوم ہوا کہ اس کا تعلق سرمائے سے نہیں ، اپنی صلاحیتوں  کو بہترین طریقے سے بروئے کار لانے سے ہے۔ یوکرین نے جو ڈرون بنائے اُن کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ کم سے کم لاگت آئے۔ متعدد اطلاعات میں  درج ہے کہ یوکرین نے جو ڈرون بنائے اُن پر ایک ہزار ڈالر سے بھی کم لاگت آئی۔ ایک ہزار ڈالر یعنی گزشتہ روز کی شرح مبادلہ کے مطابق صرف ۸۵؍ ہزار ۶۹۰؍ روپے۔ یہاں ہم نے زیادہ سے زیادہ لاگت لکھی ہے ورنہ کئی خبروں  میں  تو صرف ۴۰۰؍ یا ۵۰۰؍ ڈالر بھی لکھی ہے یعنی کم وبیش چالیس ہزار روپے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں  کہ یوکرین نے جنگی سازو سامان سے زیادہ اپنی ذہانت پر بھروسہ کیا اور کوشش کی کہ کم سے کم خرچ کرکے دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان کیسے پہنچایا جاسکتا ہے؟ 
واضح رہے کہ مہذب سماج کا کوئی بھی مخلص اور سچا فرد جنگ کو ناپسند کرتا ہے۔ ہم بھی جنگی جنون کے خلاف ہیں ۔ اسلحہ سازی پر کروڑوں  اور اربوں  روپے پھونکنا بھی ہماری نگاہ میں  مجرمانہ اسراف ہے مگر یہاں  بات جنگ کی نہیں  ، صلاحیت کی ہورہی ہے جس کا مظاہرہ یوکرین نے کیا ہے۔ جب جنگ ہوہی رہی ہو تو ایک ملک دوسرے ملک کو زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یوکرین کے پاس اسلحہ اُتنا نہیں  ہے جتنا روس کے پاس ہے اس لئے اُس نے ایسا اسلحہ بنانے کی کوشش کی جو روس کے عظیم جنگی طیاروں  کو تباہ کرسکے چنانچہ اس کے ۴۰۰۔۵۰۰؍ ڈالر میں  بنے ہوئے ڈرون اتنے غضبناک ثابت ہوئے کہ ۷؍ ارب ڈالر کے فائٹر جیٹس کو تباہ کردیا۔ اس سے دشمن کو جھٹکا تو لگا مگر دُنیا بھی ہل گئی کیونکہ بین الاقوامی اسلحہ سازی اور اسلحہ کی خرید و فروخت کے تعلق سے حکومتوں  کا ذہن بھی بدلے گا۔ وہ کم قیمت کے تیر بہدف اسلحہ کی تلاش میں  سرگرداں  ہونگے جس کا راستہ یوکرین نے دکھایا ہے۔ یوکرین نے روس کے جن ۴۱؍ فائٹر جیٹس کو نقصان پہنچایا اُن میں  ٹی یو ۹۵، ٹی یو ۲۲؍ ایم اور اے ۵۰؍ کہلانے والے ملٹری ایئر کرافٹ شامل ہیں ۔
یوکرین کا کارنامہ کم لاگت سے ڈرون تیار کرنا ہی نہیں  ہے، ڈرونوں  کو نہایت ہوشیاری سے روس میں  اسمگل کرنا اور فضائی مراکز کے قریب پہنچانا بھی ہے۔ اس نے ماسکو کو جس مشن کے ذریعہ دن میں  تارے دکھائے اُس کو ’’مکڑی کا جال‘‘ نام دیا گیا ہے۔ اس نام کی معنویت پر غور کیجئے تو اور بھی پرتیں  کھلیں  گی ۔ 

روس میں یوکرین کے حملوں کی بلاواسطہ بھی تعریف کی جارہی ہے اور بالواسطہ بھی۔ مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یوکرین نے یہ حملے بڑی مہارت، کامل درستی، نپے تلے انداز میں اور نہایت ہوشیاری نیز پیمائش وغیرہ میں حتمیت کے ساتھ کئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان حملوں میں استعمال کئے گئے ڈرون خانہ زاد تھے، ان کی تیاری کیلئے تکنالوجی کی سطح پر بھی کسی ملک سے کوئی اشتراک نہیں تھا، اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی بعد میں اطلاع ملی اور ایک ایک حملہ اس قدر نپا تلا تھا کہ استعمال کئے گئے ۱۱۷؍ ڈرونس کے آپریٹر یوکرین میں موجود تھے اور حملے روس میں ہورہے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے تین صحافیوں نے اسے یوکرین کی نفسیاتی فتح قرار دیا ہے۔ 
اس میں شک نہیں کہ غیر مردمی فضائی گاڑیاں (اَن مینڈ ایریل وہیکل، مخفف یو اے وی) ۲۰؍ ویں صدی کے ابتدائی دَور سے جنگو ں میں استعمال کی جارہی ہیں مگر یوکرین نے ان کے استعمال کی نوعیت ہی بدل دی اور انہیں قابل ذکر بلندی تک پہنچا دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یوکرین میں اب ہر بریگیڈ کے پاس ڈرون کا یونٹ ہے جو غیر مردمی فضائی گاڑیوں کا استعمال کرتا ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ کل تک ڈرون کو ضمنی تکنالوجی سمجھا جاتا تھا مگر یوکرین نے اسے محاذ جنگ پر سب سے آگے رہنے والا اسلحہ (فرنٹ لائن ویپن) بنادیا ہے۔ 
اس میں بھی شک نہیں کہ ڈرون سازی میں ترکی، چین اور اسرائیل کو ید طولیٰ حاصل ہے مگر یوکرین نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی ڈرون بنا سکتا ہے، نہ صرف بنا سکتا ہے بلکہ ان کے استعمال کے ذریعہ تکنیکی مہارت کا عملی مظاہرہ بھی کرسکتا ہے اور کم ترین وسائل کے باوجود اس سے بہترین نتائج برآمد کرسکتا ہے۔ دی اکنامک ٹائمس کے گلوبل ڈیسک کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین، ڈرون پروڈکشن کا پاور ہاؤس بن گیا ہے اور اب اس مقام پر ہے کہ سالانہ ۱۰؍ ملین یعنی ایک کروڑ ڈرون بنا سکتا ہے۔ یہ سب اُسی شخص (ولادیمیر زیلنسکی) کی قیادت میں ہورہا ہے جو فروری ۲۵ء میں امریکہ کے اووَل ہاؤس میں ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کیلئے مدعو کیا گیا تو اُس کی تحقیر کی گئی تھی۔ اُس سے سوال کیا گیا تھا کہ وہ سو‘ٹ پہن کر کیوں نہیں آیا؟ سوٹ پہننے کو امریکی وقار سے جوڑ دیا گیا اور اُسے بتایا گیا کہ سو‘ٹ نہ پہننا امریکہ کی، صدر امریکہ کی اور امریکی عوام کی بے عزتی ہے۔ ٹرمپ سے بات چیت کے دوران بھی سفارتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر اُسے کافی سخت سست کہا گیا مگر اس نے تحمل کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ سوٹ نہ پہننے کے سوال کا معقول سا جواب دے کر آگے بڑھ گیا۔ 
سوٹ نہ پہن کر زیلنسکی نے کسی کو چونکایا نہیں تھا مگر ڈرون کی تیاری اور ان کے حیران کن استعمال کے ذریعہ سب کو چونکا دیا ہے۔ دُنیا بھر کے اخبارات اور ویب سائٹس نے روس پر اس کے حملے کو خاصی اہمیت کے ساتھ شائع کیا، ڈرونس کی نہایت کم لاگت پر اظہارِ حیرت کیا اور حملوں کیلئے Audacious(نڈر، بے خوف، جرأتمندانہ) کا استعمال کرکے یوکرینی قیادت کی ستائش ہی کی ہے خواہ براہ راست نہ ہو۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ بڑی طاقتیں چھوٹے ملکوں کو کمتر نہ سمجھیں، قدرت نے ہر انسان کو صلاحیتیں دی ہیں خواہ وہ کسی خطے کا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK