• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دولت و آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم

Updated: December 13, 2025, 2:29 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

۲۰۲۶ء ابھی شروع نہیں ہوا ہے مگر ’’ورلڈ اِن ایکوالیٹی رپورٹ ۲۰۲۶ء‘‘ جاری ہوچکی ہے۔ یہ اس نوعیت کی تیسری رپورٹ ہے جو اس سے قبل ۲۰۱۸ء اور ۲۰۲۲ء میں جاری کی گئی تھی۔ اسے ’’ورلڈ اِن ایکوالیٹی لیب‘‘ نامی ادارہ تیار کرتا ہے جس سے فرانسیسی ماہر معاشیات تھامس پکیٹی جیسے ماہرین وابستہ ہیں ۔

INN
آئی این این
۲۰۲۶ء ابھی شروع نہیں  ہوا ہے مگر ’’ورلڈ اِن ایکوالیٹی رپورٹ ۲۰۲۶ء‘‘ جاری ہوچکی ہے۔ یہ اس نوعیت کی تیسری رپورٹ ہے جو اس سے قبل ۲۰۱۸ء اور ۲۰۲۲ء میں  جاری کی گئی تھی۔ اسے ’’ورلڈ اِن ایکوالیٹی لیب‘‘ نامی ادارہ تیار کرتا ہے جس سے فرانسیسی ماہر معاشیات تھامس پکیٹی جیسے ماہرین وابستہ ہیں ۔ 
اس ادارہ کی تازہ رپورٹ نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں  بتایا گیا ہے کہ آمدنی اور دولت کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ پوری دُنیا میں  معاشی عدم مساوات ہے مگر ہندوستان میں  اس کی رفتار زیادہ ہے چنانچہ وطن عزیز اُن ملکوں  میں  شامل ہے جہاں  عدم مساوات سب سے زیادہ ہے۔ اس آئینہ میں  اپنا چہرا دیکھتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ایسا ملک جس کی سب سے بڑی دولت اس کی آبادی ہے، اس آبادی کی سب سے بڑی خصوصیت کچھ کر دکھانے پر یقین رکھنے والے افراد ہیں ۔ اس آبادی میں  جہاں  محنت کش ہیں  جو تپتی دھوپ میں  پسینہ بہاکر خوش ہوتے ہیں  کہ اپنے ہاتھوں  کی کمائی کھا رہے ہیں ، وہیں  اعلیٰ صلاحیتوں  والے ایسے پروفیشنل بھی ہیں  جو دیگر ملکوں  بالخصوص امریکہ میں  جاکر اپنی بیش بہا خدمات کے ذریعہ ملک کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں ۔ بیرونی ممالک ہمارے انسانی وسائل کی تعریف کرتے ہیں  کیونکہ ہمارے شہری اُن ملکوں  میں  اپنی سود مند موجودگی کا احساس دلوائے بغیر نہیں  رہتے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہی لوگ جب اندرونِ ملک اپنی خدمات پیش کرتے ہیں  تو اُن کی قدر نہیں  ہوتی مگر جب اُنہیں  باہر جانے کا موقع مل جاتا ہے تو اُن کی صلاحیتیں  اور کارگزاریاں  لائق ستائش قرار پاتی ہیں ۔
ہمارے یہاں  نہ تو محنت کشوں  کے ساتھ انصاف ہو پاتا ہے نہ ہی تعلیم یافتہ آبادی کے ساتھ۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کب ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تقسیم کے مواقع فراہم کئے جائینگے۔ چونکہ ایسا نہیں  ہوتا اس لئے ایسا لگتا ہے جیسے اتنی بڑی آبادی کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں ۔ کوئی سوچتا بھی ہے کہ کپڑا سازی، برتن سازی، کھلونا سازی، قفل سازی، زردوزی اور دستکاری کے مراکز جو پُرجوش معاشی سرگرمیوں  میں  اہم کردار ادا کرتے تھے، بند ہونے کی راہ پر ہیں ۔ چھوٹی صنعتیں  یا تو دم توڑ چکی ہیں  یا نزع کے عالم میں  ہیں ۔ یہ صنعتیں  بڑی صنعتوں  کیلئے کھاد کا کام کرتی تھیں  مگر انہیں  نہ تو مین اسٹریم کا حصہ بننے دیا گیا نہ ہی اُن کے استحکام کیلئے کوئی نتیجہ خیز قدم اُٹھایا گیا۔ رہی سہی کسر نوٹ بندی نے پوری کردی۔
واضح رہنا چاہئے کہ ہندوستان ٹریڈنگ پر اصرار کرتا رہا اور دیگر ملکوں  بالخصوص چین نے مینوفیکچرنگ کو اپنا طرۂ امتیاز بنالیا۔ عجب نہیں  کہ چین کا مینوفیکچرنگ شعبہ ۴ء۶۶؍ کھرب ڈالر کا ہے جبکہ ہمارا ۱ء۴۱؍ کھرب ڈالر کا۔ آبادی میں  چین سے آگے نکلنے کے باوجود پیداواریت (پروڈکٹیوٹی) میں  ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ یہ اس لئے ہوا کہ گھریلو اور چھوٹی صنعتوں  کی ضرورت کم نہیں  ہوئی مگر ہم نے ان کی کمر اس ادا سے توڑ ی کہ کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی بھی تو دوسری طرف دیکھنے لگے۔
ہم نے دیسی صنعتوں  کو روایتی سے جدید اور جدید سے جدید تر بنانے کی فکر کرنا تو دور کی بات انہیں  نظر انداز کردیا۔ بھاری صنعتیں  ضروری ہیں  مگر وہی ضروری نہیں  ہیں ۔ چھوٹی صنعتیں  زیادہ روزگار پیدا کرتی ہیں ۔ کیا یہ ہمیں  بھولنا چاہئے تھا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK