احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارہ کا، جو لندن کیلئے اُڑان بھر رہا تھا، اچانک حادثہ کا شکار ہونا اور آگ اور دھویں کے غیر معمولی مرغولے میں تبدیل ہوکر مکانات پر گر پڑنا ایسا سانحہ ہے کہ جس نے بھی سنا وہ لرز کر رہ گیا۔
EPAPER
Updated: June 13, 2025, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارہ کا، جو لندن کیلئے اُڑان بھر رہا تھا، اچانک حادثہ کا شکار ہونا اور آگ اور دھویں کے غیر معمولی مرغولے میں تبدیل ہوکر مکانات پر گر پڑنا ایسا سانحہ ہے کہ جس نے بھی سنا وہ لرز کر رہ گیا۔
احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارہ کا، جو لندن کیلئے اُڑان بھر رہا تھا، اچانک حادثہ کا شکار ہونا اور آگ اور دھویں کے غیر معمولی مرغولے میں تبدیل ہوکر مکانات پر گر پڑنا ایسا سانحہ ہے کہ جس نے بھی سنا وہ لرز کر رہ گیا۔ ہم ہندوستان سے لے کر بیرونی ملکوں کے تمام متاثرہ خاندانوں کے حق میں دُعاگو ہیں کہ خداوند تعالیٰ اُنہیں اپنے پیاروں کی ایسی المناک موت کو سہنے کی طاقت عطا فرمائے۔
کون جانتا ہے کہ اس بدقسمت طیارہ پر سوار مسافروں میں کیسے کیسے لوگ تھے، اُن کی کیا خواہشیں تھیں ، اُن کے کیا عزائم تھے اور اُن میں کون کون تھا۔ کوئی اپنی ماں کی اکلوتی اولاد ہوگی، کسی کی نئی نئی شادی ہوئی ہوگی، کسی کی شادی طے ہوچکی ہوگی، کوئی اپنے عزیزوں سے ملاقات کیلئے جارہا تھا، کوئی اپنے کاروبار میں وسعت کی مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ عازم سفر ہوا تھا، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی آرزوئیں ، تمنائیں ، خواب اور منصوبے آنِ واحد میں ملیامیٹ ہوگئے۔ متوفین کے اہل خانہ پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہر مسافر کی موت اُس کے خاندان کیلئے شدید ذہنی صدمہ ہے جس سے جلد اُبھرنا اُن کیلئے نہایت مشکل امر ہے۔وہ تمام لوگ جو اس طیارہ کے حادثہ کی خبر سن کو رنجیدہ ہوئے وہ تو کچھ دیر میں اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں گم ہوگئے ہوں گے اور چند روز میں اس سانحہ کو بھول بھی جائینگے مگر جن خاندانوں نے اپنے عزیزوں کو کھویا، اُن کی زندگی میں پیدا ہونے والا خلاء کبھی نہیں بھر سکے گا، اُنہیں اس کے ساتھ ہی نباہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی بقیہ زندگی گزارنی ہوگی۔
اس سانحہ کی جتنی پرتیں کھل رہی ہیں ، رنج و غم اُتنا گہرا ہوتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ طیارہ میں صرف ہندوستانی مسافر نہیں تھے، غیر ملکی بھی تھے۔ اس میں گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی بھی سوار تھے جو لندن میں اپنے اعزاء سے ملاقات کیلئے جارہے تھے۔ سی سی ٹی وی سے ملنے والے فوٹیج سے علم ہوا کہ طیارہ اُڑان بھرنے کے صرف تیس سیکنڈ کے اندر جھو‘ل گیا اور گر پڑا۔ چونکہ اس میں کافی مقدار میں ایندھن تھا اس لئے زبردست آگ بھی لگی۔
اتنے بڑے حادثے میں کوئی بچ بھی سکتا ہے اس کی اُمید بھی نہیں کی جاسکتی مگر حکام نے بتایا کہ ایک مسافر، جس کا نام رمیش وشوکمار بچرواڑہ ہے، خوش قسمت رہا اور پیدل چل کر قریب میں کھڑی ہوئی ایمبولنس تک گیا۔ جس طیارہ پر ۲۴۲؍ افراد سوار رہے ہوں اور ۲۴۱؍ کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو(بلکہ ۲۰۴؍ اموات کی تصدیق ہوچکی ہو)، اُس میں ایک بچ نکلے تو اس طرح بچ نکلنے کو خدا کی قدرت ہی کہا جائیگا۔ اس دوران ایک قابل ذکر خبر یہ ہے کہ ایئر انڈیا نے ہر متوفی مسافر کے ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایئر انڈیا نے دہلی اور ممبئی سے خصوصی طیاروں کا انتظام کیا ہے تاکہ متوفین کے ورثاء کو احمد آباد پہنچنے میں سہولت ہو۔ اس دوران حکومت ِ برطانیہ نے حادثہ کی وجوہات کا پتہ لگانے کیلئے اپنے ماہرین کو روانہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ان خبروں سے تھوڑی بہت راحت ملتی ہے مگر جو نقصان ہوا وہ ہوچکا۔ معاوضہ سے کسی کے نقصان کی بھرپائی نہیں ہوسکتی۔ چونکہ طیارہ بی جے میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کی عمارت پر گرا ہے اس لئے کہا نہیں جاسکتا کہ کیا اس عمارت کے مکینوں کا بھی جانی نقصان ہوا ہے!