آزادی کی ۷۹؍ ویں سالگرہ ایسے وقت آئی ہے جب وطن عزیز بے شمار تلخ سوالات کے حصار میں ہے۔ ایک طرف آزادی کا جشن ہے، آزاد ہونے کا احساس مسرت ہے، آزاد ملک کا شہری ہونے کے ناطے اپنے آپ پر فخر ہے
EPAPER
Updated: August 15, 2025, 2:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
آزادی کی ۷۹؍ ویں سالگرہ ایسے وقت آئی ہے جب وطن عزیز بے شمار تلخ سوالات کے حصار میں ہے۔ ایک طرف آزادی کا جشن ہے، آزاد ہونے کا احساس مسرت ہے، آزاد ملک کا شہری ہونے کے ناطے اپنے آپ پر فخر ہے
آزادی کی ۷۹؍ ویں سالگرہ ایسے وقت آئی ہے جب وطن عزیز بے شمار تلخ سوالات کے حصار میں ہے۔ ایک طرف آزادی کا جشن ہے، آزاد ہونے کا احساس مسرت ہے، آزاد ملک کا شہری ہونے کے ناطے اپنے آپ پر فخر ہے اور جن مجاہدین کی قربانیوں کے نتیجے میں آزادی ملی اُن کیلئے جذبۂ ممنونیت ہے تو دوسری طرف انتخابی فہرستوں میں دھاندلیوں کا شکوہ ہے، ان میں مضحکہ خیز غلطیوں کا انکشاف ہے، جمہوری اداروں کی گرتی ساکھ ہے، ترقی کے پُرکشش دعوؤں کے باوجود ترقیاتی معیارات پر پورا نہ اُترنے کی حقیقت ہے، معاشی نابرابری میں اضافے کے اعدادوشمار ہیں ، فی کس آمدنی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہونے کا مسئلہ ہے، بڑھتے اور سنگین ہوتے جرائم ہیں ، طالب علموں کی خود کشی کے واقعات ہیں ، کسانوں کی زبوں حالی اور اُن کے انتہائی قدم اُٹھانے کی دہلا دینے والی تصویر ہے، وہ ماحول ہے جس میں خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور وہ سیاسی منظرنامہ ہے جو وطن عزیز میں پہلے کبھی نہیں تھا۔
یہ متضاد کیفیات ہیں ۔ اگر آزادی کا احساس تقویت بخشتا ہے تو محولہ بالا مسائل کا حصار تشویش و اضطراب پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں بحیثیت شہری ہمیں کیا کرنا چاہئے یہ سوال نہایت سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک کی آزادی امانت ہے جسے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری موجودہ نسل کی ہے۔ اس نسل کو خود آگاہ اور اپنے فرائض کے ادراک کا حامل ہونا چاہئے۔ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر تکیہ کرنے اور اُن سے اُمید وفا رکھنے کی روایت کو ختم کرتے ہوئے اپنے جمہوری فرائض و حقوق کو نہ صرف سمجھنا بلکہ انہیں عملی زندگی کا جزوِ لاینفک بنانا ہوگا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ فرائض کو پورا کیا جائیگا اور حقوق کیلئے مثبت، پُرامن اور جمہوری جدوجہد جاری رکھی جائیگی۔ اس نسل کو اعلیٰ انسانی و جمہوری قدروں کی بقاء کی کوشش میں حصہ دار بننا ہوگا۔ آئین سب کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اس لئے آئین کی حفاظت ہر خاص و عام کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہونا چاہئے۔ آئین زبان پر کم، ذہن و دل میں زیادہ رہے اور عمل کے ذریعہ تسلسل کے ساتھ ظاہر ہوتا رہے۔
ایک اچھے شہری کو ہمہ وقت یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ملک کے تمام شہریوں کے حقوق اور فرائض ایک دوسرے سے وابستہ اور مربوط ہیں ۔ ایک کا حق دوسرے کا فرض اور دوسرے کا حق پہلے کا فرض ہے۔ بہت سے لوگ آئین پر یقین کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کی پاسداری اُن کے عمل سے نہیں جھلکتی۔ شہریوں کی زندگی میں آئین رچ بس جائے تو آزادی کی روح کبھی فنا نہیں ہوسکے گی کیونکہ تب حکومتیں اور سیاسی جماعتیں بھی اس جانب توجہ دینے اور اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہونگی۔ حکومت تب من مانی کرتی ہے جب عوام غافل رہتے ہیں ۔ عوام جاگتے رہیں اور اپنی بیداری کا ثبوت دیتے رہیں تو صورتحال ویسی نہیں رہے گی جیسی ہے۔
آزادی ملی تو جمہوریت ملی، اب جمہوریت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد ہوگی تو آزادی کی حفاظت ممکن ہوگی۔ اس ضمن میں یہ اعتراض بے جا نہ ہوگا کہ یہ ساری باتیں پڑھنے میں اچھی لگتی ہیں مگر کیا موجودہ حالات میں بقائے جمہوریت کی کوشش سود مند ہوسکتی ہے جب جمہوریت چوطرفہ حملوں کی زد پر ہو؟ سوال بے جا نہیں ہے ۔ اس کے جواب میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی علاج کی بھاگ دوڑ تبھی کرتا ہے جب بیمار ہوتا ہے۔ صحتمند ہو تو علاج کی بھاگ دوڑ کیوں کریگا؟