Inquilab Logo Happiest Places to Work

وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری قانون، کرپشن پرقابو کیلئے نہیں، اپوزیشن کو کنٹرول کیلئے

Updated: August 24, 2025, 2:32 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کا خدشہ بہت زیادہ ہے، تو یہ اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنےاور ان کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کا ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہےاور سچ تو یہ ہے کہ یہ قانون صرف سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں، عوام کیلئے بھی بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

The purpose of this law is not exactly what Prime Minister Modi said in an election rally in Bihar or Home Minister Amit Shah said in the Lok Sabha. Photo: INN.
اس قانون کا مقصد وہ قطعی نہیں ہے جو وزیراعظم مودی نے بہار کےانتخابی جلسے میں کہا یا وزیرداخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں کہا۔ تصویر: آئی این این۔

مجھے یقین ہے کہ امتحانی دنوں میں ایسے طلبہ سے آپ کا بھی سابقہ پڑا ہوگا یا کم از کم آپ انہیں جانتے ہوں گے جو ’کامیاب‘ ہونےکیلئے خوب محنت کرتے ہیں اور اس کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ یہ محنت نوٹس بنانے، کتابیں پڑھنے، سمجھنے اور انہیں یاد کرنے کیلئے نہیں ہوتی بلکہ چٹ بنانے، نقل کرنے کے مختلف طریقے تلاش کرنے، سیٹنگ کرنے، سپروائزر، اگزام آرگنائزر، آبزرور اور دیگر متعلقہ عہدیداران و ذمہ داران کی خوشامد کرنے، بدعنوانی پر انہیں آمادہ کرنے اور نہ ماننے کی صورت میں طرح طرح کی دھمکیاں دینے اور انہیں نقصان پہنچانے کیلئے ہوتی ہے۔ 
اِن دنوں ملک میں بی جے پی کی حرکتیں بھی کچھ انہیں طلبہ کی طرح ہیں جو امتحان میں پاس ہونے کیلئے پڑھائی کے علاوہ سب کچھ کرتے ہیں۔ عوامی کام کرنے، عوام کو فائدہ پہنچانے اور عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے بی جے پی اپنی ساری قوت اورساری توانائی’انتخابی فہرست بنانے سے انتخابات کے انعقاد تک، افسران کی تقرری سے لے کر قانون سازی تک اور میڈیاکو قابو میں کرنے سے لے کر اپوزیشن لیڈران کی ہراسانی تک‘ میں صرف کررہی ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے اس کے مرکز نگاہ میں قانون، قومی مفاد اور عوام نہیں ہوتے بلکہ صرف اور صرف حصول اقتدار اور اپنا مفاد ہوتا ہے۔ ملک میں انتخابات پر سوال اُٹھنے، الیکشن کمیشن سے اب کچھ زیادہ فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہ ہونے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو ملنے والی عوامی حمایت نے اسے بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ بی جے پی کو ایسا لگنے لگا ہے کہ ان حالات میں وہ آئندہ کچھ مہینوں میں بہار اور اس کے بعد مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو اور کیرالا کے اسمبلی انتخابات میں کچھ خاص کرپانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اسلئے وہ ملک پر ایک ایسا قانون تھوپنا چاہتی ہے جس کی مدد سے وہ نہ صرف حریف بلکہ حلیف جماعتوں کو بھی کنٹرول کرسکے۔ 
اس بل کی سنگینی کا اندازہ لگا نے کیلئے قانون کا ماہر ہونا ضروری نہیں ہے جسے ۱۹؍ اگست کو بی جے پی نے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ اس بل کے مطابق اگر کوئی وزیر یاوزیر اعلیٰ عہدے پر رہتے ہوئے کسی جرم کے الزام میں، جو کسی قانون کے تحت قابل تعزیر ہے اور جس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے، لگاتار ۳۰؍ دنوں تک گرفتار ہوکر حراست میں رہتا ہے تو اسے ۳۱؍ویں دن استعفیٰ دینا ہوگا۔ بھلے ہی اس کا جرم ثابت نہ ہوا ہو۔ بل میں وزیراعظم کا نام بھی شامل کیا گیا ہے لیکن اس بات کا امکان نہ کے برابر ہے کہ کوئی ایجنسی اُس وزیراعظم کو گرفتار کرنے کی جرأت کرے گی جو اسی کی ماتحتی میں کام کررہی ہو۔ 
بہار میں انتخابی فہرست کی ’خصوصی نظر ثانی‘ معاملے میں عوامی اور عدالتی سطح پر منہ کی کھانے کے بعد بی جے پی نے اس بل کو پیش کرنے میں انتہائی عجلت کا مظاہرہ کیا ہے اور ایساکرتے ہوئے اس نے قانون اور پارلیمانی ضابطوں کو بھی ٹھینگا دکھایا ہے۔ پارلیمانی ضابطوں کے مطابق ’’قاعدہ ۱۹؍(اے) کہتا ہے کہ کسی بھی وزیر کو لوک سبھا میں بل پیش کرنے سے پہلے سیکریٹریٹ کو اس کی اطلاع دینی ہوگی۔ اسی طرح قاعدہ ۱۹؍(بی) کہتا ہے کہ کسی بھی بل کو باضابطہ طور پر متعارف کرانے سے پہلے اس کی کاپیاں لوک سبھا کے تمام اراکین کے درمیان پہنچناضروری ہے تاکہ وہ متعلقہ بل کا جائزہ لے سکیں اور اس تعلق سے اپنی تیاری کر سکیں۔ ‘‘ لیکن حکومت نے ایساکچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس وزیرداخلہ امیت شاہ نے ’وقت کی قلت‘ کا حوالہ دے کر لوک سبھا کے جنرل سیکریٹری کو ایک خط لکھ کر ان سےمطالبہ کیا کہ موجودہ اجلاس میں اس بل کو پیش کرنے کی اجازت دینے کیلئے ضابطوں میں نرمی برتی جائے۔ یہ بل ۱۹؍ اگست کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا جبکہ ۲۱؍ اگست رواں اجلاس کا آخری دن تھا۔ اس عجلت سے بھی بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہوتا ہے۔ 
اپوزیشن نے اس بل پر شدیداعتراض کیا ہے اور اسے ملک کیلئے ایک سیاہ باب قرار دیا ہے اور اسے روکنے کی کوشش بھی کررہی ہےکیونکہ یہ صرف ایک قانون کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی جمہوریت اور آئینی اصولوں کا سوال ہے۔ ملک کے موجودہ صورتحال میں اس قانون کے غلط استعمال پر اپنے خدشات کااظہار کرتے ہوئے کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ’’کتنی خطرناک صورت حال ہے۔ گرفتاریوں کیلئے کوئی ہدایات نہیں، اپوزیشن لیڈروں کی اندھا دھند اور بے حساب گرفتاریاں۔ ایسے میں نئے مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ محض گرفتاری ہی پر وزیراعلیٰ وغیرہ کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔ ‘‘ اپنے اسی بیان میں انہوں نے آگے کہا کہ’’اپوزیشن کو غیر مستحکم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کرنے کیلئے جانبدار مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کیا جائے۔ من مانی طور پر گرفتار کرکے انہیں عہدے سے ہٹادیا جائے، بھلے ہی وہ انہیں انتخابات میں شکست نہ دے سکی ہو۔ ‘‘
بی جے پی کے کام کرنے کے طریقوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس قانون کی زد پر ممتا بنرجی، عمر عبداللہ، سدا رمیا، ایم کے اسٹالن، سکھویندر سنگھ سکھو اور ریونت ریڈی تو ہوں گے ہی، نتیش کمار اور چندابابو نائیڈو بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے، یہاں تک کہ نتن گڈکری جیسے لیڈربھی جو بسا اوقات اشاروں اشاروں میں کچھ کہنے کی جسارت کرتے ہیں، اس قانون کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کے ۱۲؍ سے زیادہ وزرائے اعلیٰ نے اپنے انتخابی حلف ناموں میں اپنے اوپر عائد مقدمات کااعتراف کیا ہے۔ اس میں سے ۱۰؍ کے خلاف سنگین الزامات عائد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ریونت ریڈی کے خلاف سب سے زیادہ ۸۹؍ مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح سدارمیا کیخلاف ۱۳؍، ایم کے اسٹالن کے خلاف ۴۷؍، چندرا بابو نائیڈو کے خلاف ۱۹؍، ہیمنت سورین کے خلاف ۵؍، سکھویندر سنگھ سکھو اور دیویندر فرنویس کے خلاف ۴۔ ۴؍ مقدما ت درج ہیں۔ 
اگر یہ بل قانون قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کا خدشہ بہت زیادہ ہے، تو یہ اپوزیشن لیڈروں کو ہٹانے اور ان کی حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کا ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہے۔ کیجریوال اور سورین کے معاملات سے صاف ہے کہ اس سے پہلے بھی تفتیشی ایجنسیوں کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ ویسے بھی۲۰۲۳ء میں نافذ بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس) نے پولیس حراست کی مدت کو۱۵؍ سے بڑھا کر۹۰؍ دن کر دیا ہے۔ ایسے میں کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر کو۳۰؍ دنوں سے زیادہ حراست میں رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ۲۲؍ اگست کو وزیراعظم نے بہار کی ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے بل کی خوبیاں گنائیں اور اسے بدعنوانی کے خلاف ایک بڑا ہتھیار بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اس مجوزہ قانون سے وہی لوگ خوف زدہ ہیں جو بدعنوانی میں گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ با ت سبھی جانتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد وہ قطعی نہیں ہے جو وزیراعظم نے انتخابی جلسے میں کہا یا وزیرداخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں بیان کیا۔ بی جے پی کے نزدیک بدعنوانی کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ قانون کااستعمال کرکے اپوزیشن کو کمزور کرنااور اسے کنٹرول کرنا ہے۔ ہیمنت سورین اور اروند کیجریوال کو وزیراعلیٰ رہتے ہوئے مہینوں جیل میں رکھا گیا۔ سرکاری ایجنسیوں نے ’قانون‘ کا استعمال کیا اور عدالتوں نے مقدمات کی سماعت کرنے، معاملات کو سمجھنے، ضمانت دینے اور فیصلہ کرنے میں اتنا وقت لیا کہ دونوں ہی جماعتیں تنظیمی سطح پر بکھرتے بکھرتے بمشکل سنبھل پائیں۔ مہینوں بعد جب فیصلہ آیا تو اس میں کہا گیا کہ یہ تو’ کھودا پہاڑ، نکلی چوہیا‘ والی بات ہے۔ 
جھارکھنڈ ہائی کورٹ نےسورین کو ضمانت دیتے ہوئے ای ڈی پر سخت تبصرہ کیا کہ’’ای ڈی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ ہیمنت سورین نے جرم کیا ہے۔ پیش کئے گئے دستاویزات میں نہ تو سورین کا نام ہے، نہ ہی ان کے خاندان کا۔ ‘‘ لیکن تب تک وہ ۵؍ ماہ جیل میں رہ کر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت چکے تھے اور جیل جانے سے قبل ہی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے چکے تھے۔ عدالت نے کچھ اسی طرح کا تبصرہ کیجریوال کے معاملے میں بھی کیا۔ سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ’’ای ڈی کی گرفتاری کے عمل میں شفافیت کا فقدان ہے۔ پی ایم ایل اے کی دفعہ ۱۹؍ کے تحت گرفتاری کیلئے ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، محض شک کی بنیاد پرگرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ افسوس کی بات ہے کہ تب تک وہ بھی جیل میں کئی ماہ گزار چکے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے جیل میں جانے سے قبل یا جیل میں رہتے ہوئے اپنے عہدے سےاستعفیٰ نہیں دیا تھا۔ بی جے پی اب جو نیا قانون متعارف کرا نے جارہی ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کیجریوال کی وہ روایت دہرائی نہ جاسکے۔ یہ تو ہوئی بدعنوانی کے نام پر اپوزیشن کو پھنسانے اور ان کے خلاف سازش کی بات۔ 
اس کے برعکس ہیمنت بسوا شرما، نتیش رانے، اجیت پوار، اشوک چوان اور چندرا بابو نائیڈو جیسے لیڈران کی ایک طویل فہرست ہے جن کے خلاف خود وزیراعظم، وزیر داخلہ اور بی جے پی کے دیگر لیڈران بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرچکے ہیں مگر ان کے بی جے پی میں جاتے یا بی جے پی کی حمایت کرتے ہی ان کی فائلیں بند کردی گئیں۔ اسے میڈیا، عوام اور ملک کی عدالتوں کے ساتھ ہی دنیا بھی دیکھ رہی ہے اور محسوس کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وزیراعظم کی باتوں پر کسی کو اعتماد نہیں رہ گیا ہے۔ ملک کے عوام اس بات کو اچھی طرح محسوس کررہے ہیں کہ اس قانون کا استعمال ’جس کی لاٹھی، اس کا بھینس‘ کی طرح ہوگا۔ ویسے بھی کوئی قانون بذات خود برا نہیں ہوتا بلکہ اس کااستعمال برا ہوتا ہے۔ 
وزیرقانون کے طورپر اپنےپہلے ہی انٹرویو میں ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ’’مجھے لگتا ہے کہ آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر اس کے نفاذ کی ذمہ داری جن لوگوں کو سونپی گئی ہے، وہ برے نکلے تو وہ یقیناً برا ثابت ہوگا۔ دوسری طرف آئین کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگر اس کے نفاذ کی ذمہ داری جن لوگوں کو سونپی گئی ہے، وہ اچھے ہوں گے تو وہ یقیناً اچھا ثابت ہوگا۔ ‘‘ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے قانون کا استعمال کرتے ہوئے ہی جمہوریت سے آمریت تک کا سفر طے کیا تھا لیکن دنیا نے بہت جلد اس کا انجام دیکھ لیا۔ 
الیکٹورل بانڈ، عدالت میں اس کے انکشاف پر ٹال مٹول کا رویہ، اپوزیشن کے خلاف ای ڈی کی یکطرفہ کارروائیاں، اس کے سربراہ کی تقرری میں دھاندلی، نائب صدر جمہوریہ کا پُراسرار حالت میں استعفیٰ اور اس کے بعد سے ان کی ’گمشدگی‘، الیکشن کمشنروں کی تقرری میں من مانی کیلئے قانون میں تبدیلی اور اب الیکشن کمیشن کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کاالزام... ان الزامات کی فہرست بھی کافی طویل ہے۔ 
یہ ساری باتیں سامنے آنے کے بعد اب معاملہ صرف کانگریس اور بی جے پی یا پھر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب یہ لڑائی عوام و اقتدار اور جمہوریت و آمریت کے درمیان ہوگئی ہے۔ بی جے پی کوشاید ابھی تک اس بات کااندازہ نہیں ہے کہ عوام جب اقتدار کے مقابل آتے ہیں تو اندرا گاندھی جیسی ’آئرن لیڈی‘ کو بھی سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ دہائیوں تک اقتدار پر قابض رہنے والی بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو در در بھٹکنا پڑتا ہے اور پڑوسی ملک سری لنکاکے سابق صدر رانیل وکرما سنگھے کو جیل جانا پڑتا ہے۔ 
افسوس کہ وطن عزیز کے حالات بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب، بد سے بدتر اور جمہوریت سے آمریت کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے عوام کو اپنے استحصال کا احساس و ادراک کب ہوتا ہے اور ان کی قوت برداشت کب جواب دیتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK