Inquilab Logo Happiest Places to Work

نئی نسل مصنوعی ذہانت کی دلدادہ ہےمگر اس کے چیلنجوں کا کیا ہوگا؟وہ ہمیں سمجھنا پڑے گا!

Updated: August 26, 2025, 5:01 PM IST | Shabana Rizwan Arab | Mumbai

اے آئی کا استعمال ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچے اسی پر منحصر ہوکر رہ جائیں اور مصنوعی ذہانت پر غیر ضروری انحصار کرکے خود کو اس کا اسیر بنالیں اور فطری ذہانت کو داؤ پر لگادیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج کی دنیا میں کوئی چیز اتنی تیزی سے ہماری زندگی کا حصہ نہیں بن رہی جتنی کہ مصنوعی ذہانتArtificial Intelligence (AI)۔ یہ اب صرف فلموں اور سائنس فکشن کی کہانیوں تک محدود نہیں، بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ ایسی تبدیلی ہے جو ہمارے سامنے کئی اہم سوالات کھڑے کرتی ہے، مثال کے طور پر: کیا مصنوعی ذہانت آنے والے کل کے بچوں کی ذہانت اور صلاحیتوں پر مثبت اثرات مرتب کرے گی یا ان کے لئے نئی مشکلات پیدا کرے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے:نائب صدر کے انتخاب کا طریق کار کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت کے جہاں کئی فوائد ہیں، وہیں ہمیں کئی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ اے آئی بچوں کے لئے ایک شاندار معاون ثابت ہو سکتی ہے، ایک ایسا استاد جو ہر بچے کی رفتار اور سمجھ کے مطابق اسے سکھا سکتا ہے۔ اس کی مدد سے ذاتی نوعیت کی تعلیم (Personalized Learning) ممکن ہو چکی ہے، جو ہر بچے کی انفرادی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی سے چلنے والے گیمز اور ایپس بچوں میں منطقی استدلال اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اے آئی نے ایک نئی سمت دی ہے؛ بچے اب اے آئی ٹولز کی مدد سے کہانیاں، نظمیں اور تصاویر بنا کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا رخ بھی ہے جو ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر بچے ہر چھوٹے بڑے سوال کیلئے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگیں گے تو ان میں خود سے سوچنے اور تحقیق کرنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔ ان کی تجسس اور تخلیقی سوچ پر بھی اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف اے آئی کی بنائی ہوئی چیزوں کی نقل کرنا سیکھیں گے۔ اس کے علاوہ اے آئی کا زیادہ استعمال بچوں کو معاشرتی طور پر الگ تھلگ کر سکتا ہے۔ جب وہ سارا وقت اسکرین کے سامنے گزاریں گے تو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور سماجی مہارتیں سیکھنے میں پیچھے رہ جائینگے۔ 

یہ بھی پڑھئے:وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری قانون، کرپشن پرقابو کیلئے نہیں، اپوزیشن کو کنٹرول کیلئے

اے آئی کا استعمال فائدہ مند بھی ہے اور نقصان دہ بھی، اس پر مناسب حدیں اور قوانین لگانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اے آئی کو انسانی مدد کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس کی جگہ لینے کے لئے نہیں۔ بچوں کے ڈیٹا اور معلومات کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے؛ کوئی بھی اے آئی ایپ بچوں کی ذاتی معلومات ان کی یا والدین کی اجازت کے بغیر جمع نہ کرے۔ اساتذہ اور والدین کا کردار آج پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ انہیں اے آئی کے استعمال پر نظر رکھنی ہوگی نیز دیکھنا ہوگا کہ بچے ٹیکنالوجی کا مثبت اور تعمیری استعمال کریں۔ ہمیں بچوں کو سمجھانا ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے باہر بھی ایک دنیا ہے اور انہیں کھیلوں، سرگرمیوں اور سماجی میل جول میں حصہ لینے کا وقت اور موقع دینا چاہئے۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہماری قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020) نے اس حقیقت کو سمجھا ہے۔ اس پالیسی کے تحت، حکومت نے AIکو باقاعدہ طور پر نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے بچے صرف AIکے بارے میں سنیں گے نہیں، بلکہ اسے باقاعدہ پڑھیں گے اور استعمال کرنا سیکھیں گے۔ اس طرح انہیں اس جدید دنیا کے لیے تیار کیا جائے گا جہاں ٹیکنالوجی ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK