Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: ’’ممبئی میں ایک دن کی بارش سے سیلابی صورتحال: ذمہ دار کون، حل کیا؟‘‘

Updated: August 24, 2025, 3:04 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

گزشتہ دنوں کی بارش نے ممبئی اور مضافات کو بدحال کر دیا تھا۔ ممبئی میں لوکل ٹرینیں بند ہوگئی تھیں۔ اسی مناسبت سے ہم نے سوال کیا ہے اور شرکاء سے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

A day of rain threw the Mumbai civic administration`s arrangements into disarray, with the city`s roads turning into ponds. Photo: INN.
ایک دن کی بارش نے ممبئی کے شہری انتظامیہ کے انتظامات کی پول کھول دی، شہر کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی تھیں۔ تصویر: آئی این این۔

بارش میں بی ایم سی کی قلعی اُترجاتی ہے


ایک دن کی بارش سے پورا شہرپانی ہی پانی ہوگیا۔ ٹرین سروس، بس اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں سب بند پڑگئیں۔ جو جہاں تھا، وہیں پھنس کر رہ گیا تھا۔ مونوٹرین میں تو ایک بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ وہ تو خیر ہوا، ورنہ کئی لوگوں کی جانیں جاسکتی تھیں۔ بی ایم سی ہر سال دعویٰ کرتی ہے کہ نالوں اور گٹروں کی صفائی ہوگئی ہے، اسلئے اب پریشانی نہیں ہوگی مگر جیسے ہی تھوڑی سی زیادہ بارش ہوتی ہے، اس کی قلعی اُترجاتی ہے۔ یہ ہر سال کا ہوگیا ہے۔ اس کیلئے صرف بی ایم سی ذمہ دار ہے۔ بی ایم سی کو چاہئے کہ پانی کی نکاسی کا بہتر انظام کر ے تاکہ بارش میں کوئی بڑا حادثہ نہ ہو۔ امید ہے کہ آئندہ سال کچھ اچھا انتظام ہوگا تاکہ اس طرح کی نوبت نہ آئے۔ 
امتیاز احمد ملک( زکریا بندر، ممبئی) 
پانی کے اخراج کا خصوصی نظم ہونا چاہئے


معمول سے تھوڑی سی زیادہ بارش کیا ہوئی کہ ممبئی اور مضافات پانی پانی ہو گیا۔ اس کی وجہ سے نظام زندگی درہم برہم ہو گئی۔ ممبئی اور مضافات کے پانی پانی ہونے کیلئے حکومت مہاراشٹر اور ممبئی اور مضافات کے کارپوریشن کے ذمہ داران کو پانی پانی ہونا چاہئےکیونکہ یہ جانتے ہوئے کہ ممبئی اور مضافات میں دیگر ریاستوں اور شہروں کی بہ نسبت بارش عموماً زیادہ ہوتی ہے لہٰذا حکومت مہاراشٹر کو برسات سے قبل ہر ممکن حفاظتی اقدامات کرنا چاہئے۔ نالوں کی بر وقت صفائی ہونی چاہئے۔ موسم باراں میں کچرا ڈمپنگ کرنے کا خصوصی نظم ہونا چاہئے۔ راستوں کی مرمت اور توسیع پر توجہ دی جانی چاہئے۔ نشیبی علاقوں میں بارش کا پانی جمع نہ ہو، اس سلسلے میں ٹھوس اقدام کیا جانا چاہئے۔ 
جہاں تک ذمہ داری کا سوال ہے تو شہر کے نظم ونسق، حفاظتی انتظامات، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور انھیں آ فات عرضی وسماوی سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہے۔ اس سلسلے میں کارپوریشن کے ذمہ داروں اور کارپوریٹرس کا اہم رول ہونا چاہئے۔ اگر مانسون سے قبل حفاظتی اقدام کئے جائیں، گٹریں اور نالوں کی بہتر صفائی کی جائے اور پانی کے اخراج کا خصوصی انتظام کیا جائے تو اس آ فت سے بچا جا سکتا ہےاور ممبئی کےساتھ ہی مضافات کے لوگوں کو بھی کافی راحت مل سکتی ہے۔ 
مقصود احمد انصاری(سابق معلم رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی)
نالوں کی صفائی پر سال بھر دھیان دینا ہوگا    


ایک دن کی بارش میں ممبئی کی لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرینوں کی خدمات بھی کئی گھنٹوں کیلئے متاثر ہو گئی، تقریبا یہی حال بس سروس کا بھی رہا۔ سڑکوں پر پانی جمع ہو جانے کی وجہ سے بڑے بڑے گڑھے ہوگئے، جس کی وجہ سے اب کار اور بائیک سواروں کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
ممبئی اور مضافات میں اس طرح ہر سال پانی بھر جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ نالوں کی صفائی کا نہ ہوناہے اور دوسری وجہ انتظامیہ کی غفلت اور لاپروائی ہے۔ ان حالات کیلئے جہاں ایک طرف حکومت ذمہ دار ہے وہیں شہری بھی اس کیلئے قصور وار ہیں کہ وہ سال بھر گھر سے نکلنے والا کوڑا کرکٹ گٹر میں ڈالتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پانی کا اخراج ٹھیک سے نہیں ہو پاتا۔ ممبئی اور مضافات کو اگر ان حالات سے بچانا ہے تو ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر ہماری انتظامیہ کو بھی سال بھر نالوں کی صاف صفائی پر دھیان دینا ہوگا۔ مزید یہ کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا بہتر حل تلاش کرنا ہوگا۔ 
محمد قمر رضا مصباحی (پتری پل کلیان)
گٹروں کی صفائی ہو جاتی تو یہ حالات نہیں ہوتے


ایک دن کی بارش میں ممبئی اور مضافات میں ہر طرف پانی بھرگیا۔ جھوپڑوں اورکالونیوں میں کمر تک پانی آگیا، اس کیلئے بی ایم سی کے ساتھ ہی ریاستی سرکار بھی ذمہ دار ہے کیونکہ وقت سے پہلے ماہ اپریل، مئی میں نالوں اور گٹروں کی صفائی ہو جاتی تو یہ حالات پیدا نہیں ہوتے! ایم پی اور ایم ایل اے نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ پانی نکاسی کیلئے جو واٹر پمپنگ سینٹرس نصب کئے گئے تھے اس نے بھی پانی نکاسی، ڈرینج کا کام نہیں کیا بی ایم سی کا جو محکمہ اس کام کی دیکھ بھال کرتا ہے انہیں معطل کردینا چاہئے بی ایم سی کمشنر اور ڈپٹی کمشنرس کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ شہر ممبئی اور مضافات کیلئے۶۔ ۵؍ جھیلیں ہیں جو کہ آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ مہاراشٹر سرکار کے پاس زمین کی قلت نہیں ہے اور بی ایم سی کے پاس روپے پیسے کی کوئی قلت نہیں ہے۔ ایشیا کی امیر ترین کارپوریشن ہے جس کا سالانہ بجٹ لاکھوں کروڑ روپے کا ہے۔ ایسے میں میرا مشورہ ہے کہ مضافات میں مزید جھیلیں تعمیر کردی جائیں تو پانی کی قلت اور پانی کی نکاسی کا مسئلہ ختم ہوسکتا ہے۔ 
ڈاکٹر سراج الدین بلساری ( جوگیشوری)
ممبئی پھر ڈوبی، ذمہ دار کون؟


بارش تو اللہ کی رحمت ہے، لیکن ممبئی والوں کیلئے یہ اکثر زحمت بن جاتی ہے۔ ایک دن کی موسلا دھار بارش نے پھر وہی مناظر زندہ کر دیئے۔ پانی سے بھری سڑکیں، بند ٹرینیں، رکی ہوئی ٹریفک، بے بس عوام اور بے حس انتظامیہ۔ یوں لگا جیسے ممبئی ایک شہر نہیں بلکہ ایک ڈوبا ہوا جزیرہ ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ ہر سال برسات آتی ہے اور ممبئی کے زخم ہرے کر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ قصور بارش کا ہے یا پھر ہماری اپنی غفلتوں کا؟ نالوں کی گندگی، غیر منصوبہ بند تعمیرات، پلاسٹک کا بے جا استعمال اور حکومتی اداروں کی لاپروائی... سب نے مل کر اس شہر کو کمزور کر دیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نکاسیٔ آب کا جدید نظام بنایا جائے، برساتی پانی کو محفوظ کرنے کی اسکیمیں بنائی جائیں، نالوں کی بروقت صفائی کی جائے اور شہریوں کو ماحولیات کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس دلایا جائے تو یہ بحران کم ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس، وعدے ہر سال ہوتے ہیں اور نتائج ہر بار وہی نکلتے ہیں : ممبئی ڈوبتی ہے اور شہری پوچھتے ہیں کہ ’’ممبئی پھر ڈوبی، ذمہ دار کون؟ 
سید خوش ناز جعفر حسین(انجمن اسلام بدرالدین طیب جی ہائی اسکول، سی ایس ٹی، ممبئی)
کون کتنے پانی میں ہے، یہ دِکھا گئی برسات
گزشتہ دنوں کی بارش نے ایک بار پھر ممبئی شہر اور اس کے مضافات کو پانی پانی کر دیا۔ افسوس یہ ہے کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ہر سال برسات کے موسم میں یہی منظر سامنے آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہر بار ریاستی حکومت، ممبئی مہانگر پالیکا اور مقامی کارپوریٹر ہمیشہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ممبئی مہانگر پالیکا میں باقاعدہ مینٹیننس ڈپارٹمنٹ موجود ہے جس کی ذمہ داری سیوریج، ڈرینج اور سڑکوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اسی ڈپارٹمنٹ کو سب سے زیادہ فنڈ بھی دیا جاتا ہے۔ اصول کے مطابق، کسی بھی کام کیلئے مقامی نگر سیوک (کارپوریٹر) درخواست دیتا ہے، مینٹیننس ڈپارٹمنٹ اس کی منظوری دیتا ہے، بعد ازاں کارپوریشن اس کیلئے فنڈ جاری کرتا ہے، مگر اس کے بعد نہ کوئی کام کی نگرانی کرنے والا ہوتا ہے، نہ ہی جواب دہی کرنے والا۔ سب اپنا اپنا ’کمیشن‘لے کر رفوچکر ہو جاتے ہیں ... اور جب بارش آتی ہے تو ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔ 
یاد رہے کہ ممبئی شہر اور مضافات کی بیشتر ڈرینج اور سیوریج لائنیں آج بھی انگریزوں کے دور کی یعنی ۱۰۰؍ سال پرانی ہیں، جو اُس وقت کی آبادی کے لحاظ سے کافی تھیں بلکہ ضرورت سے زیادہ بہتر بھی تھیں۔ بعد میں اگرچہ کچھ جگہوں پر پرانی لائنیں بدلی گئیں اور بڑی ڈرینج لائنیں ڈالی گئی ہیں، لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے یہ نظام بالکل ناکافی ہے۔ جب تک پورے ممبئی شہر میں ایک مربوط اور بڑی ڈرینج اور سیوریج لائن نہیں بچھائی جاتی، ہر سال بارش کے موسم میں پانی بھرنے کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ 
اس مسئلے کی دوسری بڑی وجہ خود ممبئی کے عوام کا رویہ ہے۔ ’یوز اینڈ تھرو کلچر‘ نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ منرل واٹر اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں، گٹکے کے پاؤچ اور پلاسٹک کی کالی تھیلیاں بے دریغ استعمال کی جاتی ہیں جنہیں ٹھکانے لگانے کے بجائے یہاں وہاں پھینک دیا جاتا ہے جو نالیوں اور ڈرینج میں پہنچ کر پانی کی نکاسی بند کردیتے ہیں۔ یہی رکاوٹیں بارش کے پانی کو گزرنے نہیں دیتیں اور شہر جھیل کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ حکومت، کارپوریشن، کارپوریٹر اور عوام سب اپنی اپنی ذمہ داری سنبھالیں۔ ورنہ ہر برسات ہمیں یہی یاد دلاتی رہے گی کہ ’’کون کتنے پانی میں ہے؟‘‘
مبین اظہر(مولانا آزاد روڈ، ممبئی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK