بے شک، بیٹ لیول آفیسر ( بی ایل او) سرکاری ملازم ہے جسے اپنی خدمات کے عوض تنخواہ ملتی ہے مگر حکام کی ذمہ داری ہے کہ کام کی عملی دشواریوں کوسمجھ کر مناسب حل تلاش کریں اور بی ایل اوز کی خودداری اور عزت نفس کا خیال رکھیں ۔
بے شک، بیٹ لیول آفیسر ( بی ایل او) سرکاری ملازم ہے جسے اپنی خدمات کے عوض تنخواہ ملتی ہے مگر حکام کی ذمہ داری ہے کہ کام کی عملی دشواریوں کوسمجھ کر مناسب حل تلاش کریں اور بی ایل اوز کی خودداری اور عزت نفس کا خیال رکھیں ۔ جن افسران کی ماتحتی میں بی ایل اوز کام کرتے ہیں اگر وہی اُن کے مفادات کو ملحوظ نہیں رکھیں گے، اُن کے مسائل حل نہیں کرینگے اور اُن کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ نہیں کرینگے تو یہ قطعی غیر انسانی فعل ہوگا۔ حیرت اور افسوس اس بات کا ہے کہ اب تک ڈیڑھ درجن سے زائد بی ایل اوز کی اموات کے باوجود حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ شاید اُنہیں اس کی فکر بھی نہیں ہے۔ وہ ایک ہی بات جانتے ہیں کہ بی ایل اوز کو جو ٹارگیٹ دیا گیا ہے وہ مقررہ وقت میں پورا ہوجائے خواہ کام کی تکمیل کیلئے دی گئی مدت بہت کم ہو، رائے دہندگان کی جانب سے مکمل تعاون نہ مل رہا ہو، جس ایپ میں فارم کا اندراج کیا جانا ہے وہ نہ چل رہا ہو یا سروَر ڈاؤن ہو ۔ جو اطلاعات مل رہی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکام ان شکایات کو سننے کے روادار نہیں ہیں بلکہ بعض رپورٹوں کے مطابق حکام (بالخصوص ایس ڈی او) بی ایل اوز پر برہم ہورہے ہیں ، اُنہیں توہین آمیز جملوں سے نواز رہے ہیں اور بعض شکایات کے مطابق دھمکی دے رہے ہیں ۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ ایس ڈی او بھی غیر معمولی دباؤ میں ہے اور اپنے افسران بالا کو مطمئن رکھنے کیلئے بی ایل اوز کو ہدف بنا رہا ہے۔ مالی منفعت یا عہدہ میں ترقی کے نقطۂ نظر سے دیکھئے تو افسرانِ بالا تو ڈیڈ لائن پر کام کروا لینے کیلئے تنخواہ میں اضافہ یا عہدہ میں برتری کے حقدار ہو جائینگے مگر اُس بی ایل او کا مادّی فائدہ کیا ہوگا جو ہزار دشواریوں کے باوجود مقررہ میعاد میں اپنی ذمہ داری پوری کردے گا؟
ویسے تو ایس آئی آر ہی اب تک حلق کے نیچے نہیں اُتر سکا ہے کیونکہ اس سوال کا جواب نہیں مل سکا ہے کہ جس انتخابی فہرست کی بنیاد پر لوک سبھا (۲۰۲۴ء) کا الیکشن کرایا گیا ہو اور الیکشن کے بعد قومی حکومت تشکیل پائی ہو، اُس فہرست میں ایسی کون سی خامیاں اچانک در آگئی ہیں کہ ’’خصوصی اور گہری نظر ثانی‘‘ ضروری ہوگئی؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ انتخابی نتائج قابل قبول ہوں مگر انتخابی فہرست قابل قبول نہیں ؟ اس میں ایسا کیا ہے جو لوک سبھا الیکشن کے وقت ٹھیک تھا، اب ٹھیک نہیں ہے؟ پھر اتنی کم مدت میں اسے پورا کروانے کی منطق کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کچھ سننے کو تیار نہیں ہے اور اپنا طور طریقہ ازخود ٹھیک کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔کتنا افسوسناک ہے کہ ملک میں خود کشی پر خود کشی ہورہی ہے اور ایس آئی آر پر ایس آئی آر ہورہا ہے (بہار کے بعد بارہ ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں ) جبکہ اس عمل کو بہت آسانی سے بالکل اُس طرح مکمل کیا جاسکتا ہے جیسے آدھار کارڈ کا مکمل کیا گیا۔ چند برسوں میں ملک کے بیشتر شہریوں نے آدھار کارڈ حاصل کرلیا جس کیلئے جگہ جگہ سینٹر بنائے گئے تھے۔ کام بڑی آسانی سے انجام پاتا رہا۔ ملک کے کسی ایک گوشے سے بھی یہ خبر نہیں آئی کہ آدھار بنانے کے دباؤ کے پیش نظر کسی سینٹر کے ملازم نے خود کشی کرلی۔ اس سے پہلے پین کارڈ کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا گیا۔ اسی لئے لوگ مشکوک ہیں ۔ خصوصی اور گہری نظر ثانی تو ہورہی ہے مگر عجب تماشا ہے کہ نہ تو خصوصی نظم کیا گیا نہ ہی گہرائی میں جانے کا وقت دیا گیا۔