• Tue, 09 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کون ہوگا نائب صدر جمہوریہ؟

Updated: September 09, 2025, 2:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یہ اعزاز سی پی بالا کرشنن کو حاصل ہوگا یا سابق جسٹس سدرشن ریڈی کو؟ ہم قیاس آرائیوں پر دھیان نہیں دیتے اس لئے نتیجہ کا انتظار کرینگے جس میں اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ آج شام پانچ بجے تک پولنگ ہوگی اور چھ بجے سے ووٹوں کی گنتی شروع ہوجائیگی جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہے گی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 یہ اعزاز سی پی بالا کرشنن کو حاصل ہوگا یا سابق جسٹس سدرشن ریڈی کو؟ ہم قیاس آرائیوں   پر دھیان نہیں   دیتے اس لئے نتیجہ کا انتظار کرینگے جس میں   اب زیادہ وقت نہیں   ہے۔ آج شام پانچ بجے تک پولنگ ہوگی اور چھ بجے سے ووٹوں   کی گنتی شروع ہوجائیگی جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہے گی۔ شام سات بجے ہمیں   اُس سوال کا جواب مل جائیگا جو اس تحریر کا عنوان بن گیا ہے۔ 
 مگر اس سے قبل کہ مزید چند گھنٹوں   بعد باقاعدہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب ظاہر کیا جائے کہ قرعۂ فال کس کے نام نکلا، توجہ طلب امر وہ سیاست ہے جو ہر معاملے میں   بحث و مباحثے کے نئے دروازے کھولتی ہے اور کئی سوالوں   کو تشنۂ جواب چھوڑ دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب ہورہا ہے مگر سابق نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے اب تک ایک لفظ بھی نہیں   کہا ہے۔ اُن کا دور اس اعتبار سے ناخوشگوار رہا کہ راجیہ سبھا میں  ، جس کے وہ چیئرمین تھے، اپوزیشن کو اپنی بات کہنے کا موقع بالکل بھی نہیں   دیا گیا اور اپوزیشن کے اراکین کی تحقیر و تضحیک کی گئی۔ اس کے برخلاف حکمراں   اتحاد کو ہر ممکن موقع دیاگیا جو ہماری پارلیمانی جمہوریت کا سیاہ باب کہلائے گا مگر جس طرح دھنکر صاحب نے اچانک استعفےٰ دیا وہ سمجھ سے باہر ہے۔ اُنہوں   نے طبی وجوہات کو بنیاد بنایا تھا۔ وہ بھی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ جس شام استعفے کا اعلان کیا گیا، اس سے قبل وہ دن بھر فعال رہے۔ اُس شام جو لوگ اُن کے قریب تھے، اُنہوں   نے بھی صراحت کی کہ صحت خراب نہیں   تھی بلکہ وہ ہشاش بشاش تھے۔ کچھ عرصہ قبل وہ اسپتال داخل ہوئے تھے مگر صحتمند ہوکر لوَٹ آئے تھے لہٰذا استعفے کی بیان کردہ ’’طبی‘‘ وجہ مشکوک ہے اس کے باوجود نئے نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب ہورہا ہے۔اس کا معنی یہ نہیں   کہ ہمیں   اس انتخاب پر اعتراض ہے۔ جی نہیں  ، ہم صرف اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کررہے ہیں   کہ دیکھئے سیاست کس طرح، جائز سوالات کو بھی نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ آج نئے نائب صدر کا انتخاب ہوجائیگا، اس کے بعد ممکن ہے کہ لوگ باگ بھول جائیں   اور کبھی کبھار ہی یاد کریں   کہ دھنکر صاحب کا استعفےٰ بڑے پُراسرار حالات میں   ہوا تھا۔ اِتنا ہی نہیں  ، یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کیلئے روایتی الوداعی جلسہ کیوں   منعقد نہیں   کیا گیا؟ 
 مذکورہ دو سوالوں   کا تعلق ماضی سے ہے مگر کچھ تازہ اور نئے سوال بھی ہیں  ۔ مثلاً اس الیکشن میں   وہپ جاری نہیں   کی جاتی اور اراکین پارلیمان کو ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا ہوتا ہے تو کیا اس موقع پر ضمیر کے عمل دخل اور اس کی واپسی کا امکان ہے؟ کیا الیکشن کمیشن ووٹوں   کی منصفانہ گنتی کریگا؟ کہیں   ایسا تو نہیں   ہوگا کہ غیر ضروری طور پر بعض ووٹوں   کو ’’نادرست‘‘ (اِن ویلِڈ) قرار دے دیا جائے؟ سوال نمبر دو اور تین مہمل لگتے ہیں   مگر ہم ایسے دَور میں   ہیں   جب ناقابل تصور اور ناقابل عمل چیزیں   بھی ہوچکی ہیں  ۔ یاد کیجئے جنوری ۲۴ء میں   چنڈی گڑھ میئر الیکشن میں   کیا ہوا تھا۔ یاد نہ ہو تو بتادیں   کہ بی جے پی اُمیدوار کی فتح پر مہر لگ چکی تھی مگر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد عام آدمی پارٹی کے اُمیدوار کا نصیبہ جاگا تھا۔ ’’ووٹ چوری‘‘ کو بھی ملحوظ رکھئے تو سابقہ تجربات خاصے تلخ رہے ہیں  ۔ یہ بھی اہم ہے کہ دھنکر کے انتخاب کے وقت حکمراں   اتحاد کے اراکین کی تعداد جتنی تھی اُتنی اب نہیں   ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK