۴؍ جون کو دو باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔اتفاق سے ان دونوں ہی باتوں کا تعلق نتائج سے ہے۔ایک انتخابی نتائج اور دوسرے تعلیمی نتائج۔ آخرالذکر سے ہماری مراد نیٹ کے امتحان کا رزلٹ ہے۔ انتخابی نتائج ظاہر ہوئےاور چند ہی دنوں میں حکومت بھی تشکیل پاگئی مگر نیٹ کے نتائج ظاہرہونے کے بعد سے اب تک دو ہفتوں کا عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ گتھی سلجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
۴؍ جون کو دو باتوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔اتفاق سے ان دونوں ہی باتوں کا تعلق نتائج سے ہے۔ایک انتخابی نتائج اور دوسرے تعلیمی نتائج۔ آخرالذکر سے ہماری مراد نیٹ کے امتحان کا رزلٹ ہے۔ انتخابی نتائج ظاہر ہوئےاور چند ہی دنوں میں حکومت بھی تشکیل پاگئی مگر نیٹ کے نتائج ظاہرہونے کے بعد سے اب تک دو ہفتوں کا عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ گتھی سلجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اس دوران جو انکشافات ہوئے وہ ہوش اُڑا دینے والے ہیں ۔ بیک وقت ۶۷؍ طلبہ کا پورے ملک میں اوّل آنا گلے سے اترتا نہیں ہے۔گریس مارکس کن بنیادوں پر دیئے گئے اس کا بھی کوئی واضح جواب ہنوز نہیں ملا ہے ۔ گجرات کے ایک ہی سینٹر سے کئی طلبہ کا ٹاپرس میں شامل ہونا بھی کئی سوالات کھڑے کرتا ہے ۔کسی نے درست ہی کہا ہے کہ یہ ایک طرح کا ویاپم گھوٹالا ہے ۔ اس کا ویاپم سے مشابہ ہونا اس لئے بھی قرینِ قیاس ہے کہ اس کی ایک ڈور کو سلجھائیں تو دوسری الجھی ہوئی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ گریس مارکس کی ڈور کو سلجھانا چاہیں تو ۷۱۹؍اور ۷۱۸؍ مارکس کی ڈور الجھ جاتی ہے کیونکہ نیٹ کے مارکنگ سسٹم کے مطابق کسی طالب علم کو ۷۱۶؍یا ۷۱۵؍ مارکس تو مل سکتے ہیں مگر ۷۱۸؍ یا ۷۱۹؍ نہیں مل سکتے۔ جتنا غور کیجئے اتنا ہی یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ ہونہ ہو کوئی بڑا گھوٹالا یہاں بھی ہے۔ این ٹی اے ، جو نیٹ کا امتحان منعقد کرتا ہے ، کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔اسی لئے کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ جو نتائج ۱۴؍ جون کو ظاہر کئے جانے والے تھے وہ دس روز پہلے عین لوک سبھا کے نتائج کے دن کیوں ظاہر کئے گئے۔زیادہ تفصیل میں جانے کے بجائے اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ پرت در پرت بہت کچھ ایسا ہے جس کی چھان بین ہونی چاہئے۔این ٹی اے نے جو کمیٹی بنائی ہے اس پر اعتبار کرنامشکل ہے۔ چونکہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ عدالت اپنی نگرانی میں کسی غیرجانبدارکمیٹی کے ذریعے تحقیقات کروائے گی ۔ ایسا ہوا تو یقیناً بہت سی ایسی باتیں منظر عام پر آسکتی ہیں جو زیادہ چونکانے والی ہوں ۔
اس سال نیٹ امتحان میں شریک ہونے والے طلبہ کی مجموعی تعداد ۲۴؍ لاکھ ہے۔ اگر ایک دو طلبہ کی بات ہوتی تب بھی کسی محکمہ ، کسی اتھارٹی یا کسی ایجنسی کو یہ اختیار نہیں دیاجاتا کہ وہ ان طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرے، یہاں تو طلبہ کی اتنی بڑی تعداد ہے ۔ ان میں سیکڑوں ایسے ہوں گے جنہوں نے اعلیٰ رینک حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دی ہوگی ۔ کئی ہزار ایسے ہوں گے جنہوں نے دن رات محنت کی ہوگی ۔بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کے والدین نے قرض لے کر اپنے بچوں کی کوچنگ کا انتظام کیا ہوگا۔۲۴؍ لاکھ طلبہ یعنی خوابوں ، تمناؤں ، منصوبوں اور قربانیوں کی ۲۴؍ لاکھ داستانیں ۔ان میں وہ طلبہ بھی ہیں جن کے والدین نے دوسرے قسم کی محنت یعنی جوڑ توڑ کا سہارا لیا اور اس مافیا کے ہتھے چڑ گئے جو امتحانات میں پاس کروانے اور رینک دلوانےکا سودا کرتا ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس مافیا میں کون لوگ شامل ہیں ، یہ کتنی دور تک پھیلا ہوا ہے اور وہ کون لوگ ہیں جواس کی سرپرستی فرماتے ہیں ۔جب تک غیرجانبدارانہ جانچ نہیں ہوتی اس مافیا کو سمجھنا مشکل ہوگا۔ حکومت اگر نوجوانو ں کو سرمایۂ مستقبل سمجھتی ہے اور ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو اسے ہرطبقے کے نوجوانوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ ان میں نیٹ کے طلبہ فوری توجہ چاہتے ہیں ۔