Inquilab Logo Happiest Places to Work

اب ’’وشو گرو‘‘ نہیں کہتے ہم، کیوں ؟

Updated: July 15, 2025, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بہت دنوں سے، وزیر اعظم کی زبان سے ہندوستان کے ’’وشو گرو‘‘ ہونے کا تذکرہ نہیں سنا۔ کیا اِس کی وجہ اُن کی مصروفیات ہیں ؟ مگر مصروف تو وہ پہلے بھی رہے ہیں ۔ دیش واسیوں تک اِس طرح کی خبریں پہنچتی ہی رہی ہیں کہ وزیر اعظم مسلسل کام کرتے ہیں

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بہت دنوں   سے، وزیر اعظم کی زبان سے ہندوستان کے ’’وشو گرو‘‘ ہونے کا تذکرہ نہیں   سنا۔ کیا اِس کی وجہ اُن کی مصروفیات ہیں  ؟ مگر مصروف تو وہ پہلے بھی رہے ہیں  ۔ دیش واسیوں   تک اِس طرح کی خبریں   پہنچتی ہی رہی ہیں   کہ وزیر اعظم مسلسل کام کرتے ہیں   حتیٰ کہ بیرونی اسفار کے دوران ہوائی جہاز میں   آنکھ تک نہیں   جھپکاتے اور سفر کا وقت فائلوں   کے مطالعہ میں   گزارتے ہیں  ۔ اتنا مصروف رہنے والے وزیر اعظم کا اِدھر کافی دِنوں   سے ’’وشو گرو‘‘ کا اعادہ نہ کرنا باعث ِحیرت ہے، اسی لئے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اس کا سبب کیا ہے۔
  کیا اس کا سبب یہ ہے کہ ہم فارین پالیسی کے معاملے میں   کچھ اس طرح گھر گئے ہیں   کہ کہیں   ہماری دال پہلے کی طرح نہیں   گل رہی ہے؟ پہلے ہماری دال آسانی سے گلتی تھی اور اس میں   سے سوندھی سوندھی خوشبو بھی اُٹھتی تھی؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے لئے چوتھی سب سے بڑی معیشت کا لیبل تو پُرکشش ہے مگر جو زمینی مسائل ہیں   وہ حل ہونے کا نام نہیں   لے رہے ہیں  ؟ اس میں   بے روزگاری کو بھی شامل کرلیجئے اور غیر منظم زمرہ کی زبوں   حالی کو بھی۔ اس میں   چین کے مخاصمانہ  رویہ کو بھی شامل کرلیجئے اور اس حقیقت کو بھی کہ بیجنگ ہمارے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے اس کے باوجود ہم چینی مصنوعات کی درآمد پر مجبور ہیں  ؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ کل تک برسراقتدار محاذ ایک کہانی کو دوسرے عنوان سے اور دوسری کہانی کو تیسرے عنوان سے ڈھانپ لیتا تھا مگر اب ہر عنوان سے نئی کہانیاں   خود عوام کے ذریعہ منظر عام پر آرہی ہیں   اور ایسے لوگ بھی شاکی ہیں   (بھلے ہی سوال کرنے کی جرأت ہنوز اُن میں   نہ ہو) جو کل تک موجودہ شاسن کال کی جی بھر کر تعریف کیا کرتے تھے؟ 
 ہم نہیں   جانتے کہ وزیر اعظم نے ’’وشو گرو‘‘ ہونے کا تذکرہ کیوں   بالائے طاق رکھ دیا مگر کوئی ایسی بات تو یقیناً ہو گی جو مانع ہو۔ ہمارے خیال میں   جو بات مانع ہے وہ صدرِ امریکہ کی دھاندلی ہے جس کے سبب وہ کسی کو خاطر میں   لانے کیلئے تیار نہیں   ہیں  ۔ جنوری میں   ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے تب وطن عزیز میں   بہتوں   نے اُن کی تاجپوشی کا جشن منایا تھا۔ اس کے پس پشت یہی خیال کارفرما تھا کہ ٹرمپ، وزیر اعظم مودی کے بہت اچھے دوست ہیں   لہٰذا مودی حکومت کو اب کسی دقت یا دشواری کا سامنا نہیں   ہوگا۔ ایسا سوچنا غلط نہیں   تھا مگر وہائٹ ہاؤس میں   قدم رکھنے سے قبل ہی جنابِ ٹرمپ کے بیانات سے عالمی منظرنامے پر کافی اُتھل پتھل دکھائی دینے لگی تھی۔ وہائٹ ہاؤس جانے کے بعد تو وہ کھل کر سامنے آگئے اور اب تو روزانہ کا معمول ہے کہ کسی کو دھمکاتے ہیں  ، کسی کو ڈراتے ہیں  ، کسی کو ڈانٹتے ہیں  ، کسی کو دفتر بلا کر فضیحت کرتے ہیں  ، کسی کو بلائے بغیر کھری کھری سناتے ہیں  ، کہیں   جنگ رُکواتے ہیں   یا رُکوانے کا دعویٰ کرتے ہیں   اور کہیں   خود بھی میدانِ جنگ میں   اُتر کر اپنی رُسوائی کروا بیٹھتے ہیں  ۔ 
 چند ملکوں   نے اُن کی ٹیرف کی دھمکیوں   کا اُتنی ہی زوردار دھمکیوں   سے جواب دیا مگر ہر ملک تو ایسا نہیں   کرسکتا! ہم نے درمیانی راہ اختیار کی اور اب بھی توقع ہے کہ ٹرمپ اپنی پرانی دوستی کا بھرم رکھ لیں   گے، اسی لئے ہم اُس لمحہ کا انتظار کررہے ہیں   جب ٹرمپ دوست نوازی کا مظاہرہ کرینگے مگر وہ لمحہ ہے کہ قریب آتا ہوا محسوس بھی ہوتا ہے کہ تو ٹرمپ کی گیدڑ بھپکیوں   سے ٹھٹھک جاتا ہے، دور چلا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK