Inquilab Logo Happiest Places to Work

ظہران ممدانی کی کامیابی کا راز اور ڈیموکریٹک پارٹی

Updated: July 13, 2025, 2:03 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

نیویاک کے میئر الیکشن کیلئے جو رواں سال کے اواخر میں ہوگا، ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار کی حیثیت سے ظہران کا انتخاب ہوچکا ہے۔ اُن کی حتمی جیت کا بڑا اِمکان ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

حالیہ برسوں  کے سب سے زیادہ جمہوری واقعات میں  سے ایک کی خبر نیو یارک شہر سے آئی جہاں  ایک ۳۳؍ سالہ نوجوان نے، جس کا تعلق ہندوستان سے ہے،میئر الیکشن کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی اُمیدواری کا انتخاب جیت لیا ہے۔ امریکہ میں  اُمیدواری یا نامزدگی کا الیکشن جیتنا ایک طرح سے سیمی فائنل جیتنے جیسا  ہے۔ تو کیا یہ نوجوان فائنل بھی جیت لے گا؟ اس کا امکان روشن ہے کیونکہ نیویارک شہر میں  زیادہ اثرورسوخ اسی پارٹی (ڈیموکریٹک) کا ہے اور  یہ نوجوان اس پارٹی کی جانب سے نامزد ہونے کا اہل ثابت ہوچکا ہے۔ چونکہ نیویارک میں  ڈیموکریٹس کی جڑیں  کافی مضبوط ہیں  اس لئے اس نوجوان کو رواں  سال کے اواخر میں  ہونے والے میئر الیکشن کیلئے عوام کی اولین پسند (فرنٹ رنر) قرار دیا جارہا ہے۔
 آپ جانتے ہیں  یہاں  کس کی بات ہورہی ہے۔ جی ہاں ، آپ نے صحیح پہچانا۔ یہ ہیں  ظہران ممدانی، ایک گجراتی مسلم خاندان کا چشم و چراغ۔ اس کےوالد یونیورسٹی میں  پڑھاتے ہیں  اور والدہ فلمساز ہیں ۔ والد محمود ممدانی نے نائن الیون کے بعد ایک مضمون لکھا تھا جس کا چرچا دور دور تک ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’’گڈ مسلم، بیڈ مسلم‘‘ (اچھا مسلمان، خراب مسلمان)۔ جہاں  تک ظہران کی والدہ کا تعلق ہے، فلمساز کی حیثیت سے اُن کی شہرت کسی سے پوشیدہ نہیں  ہے۔ ان کا نام میرا نائر ہے جو سلام بامبے اور مانسون ویڈنگ جیسی فلمیں  بنا چکی ہیں ۔ خاندانی پس منظر سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ظہران نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کیلئے کس طرح خود کو ثابت کیا وہ بھی ایک تجربہ کار، سینئر اور خاصے اثرو رسوخ والے ڈیموکریٹک لیڈر اینڈریو کیومو کے خلاف جو نیویارک صوبہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں ۔
 حالیہ برسوں  کے جمہوری واقعات میں  سے ایک، یہ واقعہ اس لئے بہت اہم ہے کہ نیویارک کے میئر کو بڑے اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ وہ ۱۰۰؍ ارب ڈالر کے بجٹ کا نگہبان ہوتا ہے جو کہ بہت سے ملکوں  کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ اُسے ججوں ، پولیس کمشنر اور شہر کی کم و بیش چالیس ایجنسیوں  کا سربراہ مقرر کرنے اور بورڈس یا کمیشنوں  کے اراکین کی تقرری کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ سابق میئر روڈی گلیانی کو آج بھی لوگ بھولے نہیں  ہیں  تو اس کی وجہ یہی ہے کہ نیویارک کا میئر کوئی عام میئر نہیں  ہوتا۔ ظہران نے اپنا تعارف سوشلزم کے حوالہ سے کروایا کہ وہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں ۔ اس طرح اپنا تعارف کرانا بہادری کا کام ہے کیونکہ کمیونزم کے خلاف امریکہ کی پوری تاریخ ہے اور آج بھی اُس ملک میں  خود کو سوشلسٹ کہنا توہین آمیز تصور کیا جاتا ہے۔ ظہران اپنے لئے اس اصطلاح کا استعمال فخریہ کرتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ وہ مزدوروں ، عام شہریوں  اور تارکین وطن کی نمائندگی کرتے ہیں  اور آئندہ بھی کریں  گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیویارک کے میئر کی حیثیت سے وہ ۱۰؍ لاکھ مکانوں  سے کرایہ وصول کرنے کا سلسلہ روک دینگے، بسوں  کا سفر مفت کردینگے، بچوں  کا علاج مفت کردینگے اور گروسری (کرانہ) کی سرکاری دکانوں  کے ساتھ ایسا تجربہ کرینگے جو عوام کے مفاد میں  ہو۔ یہ بالکل ایسا ہوگا جیسے ہمارے یہاں  راشن کی دکانیں  ہیں  جہاں  رعایتی داموں  پر اناج اور دیگر اشیاء ملتی ہیں ۔ اُن کے بقول اِن اسکیموں  کیلئے درکارسرمایہ ایک ملین ڈالر (۸؍ کروڑ روپے) سالانہ کی آمدنی والے شہریوں  پر ٹیکس کے معمولی اضافہ سے حاصل ہوگا۔ 
 ظہران کی کامیابی میں  مذکورہ وعدوں  ہی کا دخل نہیں  ہے بلکہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی تشہیری مہم کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اُن کے شارٹ ویڈیوز کافی دھوم مچا رہے ہیں  جن میں  ظہران نیویارک کے عوام سے براہ راست خطاب کررہے ہیں  اور اُن کے مسائل کو سن رہے ہیں ۔ یہ ویڈیو ’’یو ٹیوب‘‘ پر بھی دستیاب ہیں  جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُنہوں  نے تشہیری مہم کو کم خرچ میں  زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی ہے۔ ظہران، انگریزی تو فراٹے سے بولتے ہی ہیں ، ہندی، بنگالی اور اسپینی زبان بھی بآسانی بولتے ہیں ۔ یہ سب،  اُن کے ویڈیوز میں  دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ کے وہ سیاسی لیڈران جو ہندوستانی نژاد ہیں ، اُن کے مقابلے میں  ظہران خود کو جنوبی ایشیائی بتانے میں  تکلف نہیں  کرتے۔ اُن کی تشہیری مہم میں  بالی ووڈ کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے بالخصوص ویڈیو ایڈیٹنگ میں ۔
 اُن کی تشہیری مہم اور اُمیدواری کا تیسرا سب سے نمایاں  پہلو یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں  کے حقوق کیلئے آواز اُٹھاتے ہیں  اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں ۔ سیاسی اعتبار سے اُن کا یہ موقف جرأت مندانہ ہے ورنہ امریکہ میں  رہ کر اسرائیل کے خلاف کچھ کہنا اسرائیل لابی کو تنقیدوں  پر اُبھارنے جیسا ہے۔ ظہران نے اس موقف میں  نرمی لانے سے صاف اور دوٹوک انکار کردیا ہے۔ سیاستداں  حضرات سیاسی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں  اور کسی بھی طرح الیکشن جیتنا اُن کے ایجنڈے کا محور و مرکز ہوتا ہے مگر ظہران سب سے الگ ہیں  اور ایسا نہیں  سمجھتے کہ میئر الیکشن جیتنے میں  اس موقف کی وجہ سے اُنہیں  کوئی دشواری آئے گی۔ یہ پہاڑ جیسی جرأت ہے۔

یہ بھی پڑھئے : زباں نہ ہوتی تو کس کے منہ میں زبان ہوتی

 اگر اُنہوں  نے اپنے موقف میں  نرمی لائے بغیر اور میڈیا مثلاً نیویارک ٹائمس کی شدید تنقیدوں  کے باوجود سیمی فائنل جیت لیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیویارک کے شہریوں  نے اُن کی جرأت کو سراہا اور اُن میں  اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ اُن کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی نے، نامزدگی جیت لینے کے بعد بھی، اُن کی کوئی خاص حمایت یا مدد نہیں  کی ہے۔ اوبامہ، بائیڈن یا کلنٹن جیسے لوگ اُن کی حمایت میں  نہیں  اُترے ہیں  کیونکہ انہیں  علم ہے کہ ظہران کے سوشلسٹ نظریات کی تائید کا مطلب کیا ہے۔ ماضی میں  برنی سینڈرس جیسے لوگوں  نے سوشلسٹ نظریات کی تبلیغ کی مگر وہ اِتنے زیادہ کامیاب نہیں  ہوئے جتنے ظہران ہیں ۔ 
 ظہران کی کامیابی کا مفہوم یہ ہے کہ اُن کی پارٹی کو اُن سے کافی کچھ سیکھنا ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی تاریخی کامیابی کے بعد ڈیموکریٹ تینوں  حکومتی شاخوں  (وہائٹ ہاؤس، سینیٹ اور ایوان نمائندگان) کو گنوا چکے ہیں ۔ ڈیموکریٹس کے پاس ٹرمپ کی پالیسیوں  کی کوئی کاٹ نہیں  ہے مگر ظہران کی کامیابی میں  اُن کیلئے بڑا سبق ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK