کرناٹک کے ایک حلقے مہادیو پورہ کی فہرست ِ رائے دہندگان کو کھنگالنا کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر راہل گاندھی اور اُن کی ٹیم نے انتخابی کمیشن کے عدم تعاون کے باوجود اِس محنت و مشقت کو ضروری سمجھا ۔
EPAPER
Updated: August 09, 2025, 1:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کرناٹک کے ایک حلقے مہادیو پورہ کی فہرست ِ رائے دہندگان کو کھنگالنا کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر راہل گاندھی اور اُن کی ٹیم نے انتخابی کمیشن کے عدم تعاون کے باوجود اِس محنت و مشقت کو ضروری سمجھا ۔
کرناٹک کے ایک حلقے مہادیو پورہ کی فہرست ِ رائے دہندگان کو کھنگالنا کوئی معمولی کام نہیں تھا مگر راہل گاندھی اور اُن کی ٹیم نے انتخابی کمیشن کے عدم تعاون کے باوجود اِس محنت و مشقت کو ضروری سمجھا ۔چھ ماہ کی اس کسرت کے دوران جو چشم کشا انکشافات ہوئے اُنہیں راہل نے جمعرات کو پریس کانفرنس کے ذریعہ اُجاگر کیا اور اس طرح ’’ووٹ چوری‘‘ کو الزام تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ ٹھوس شواہد پیش کرکے انتخابی کمیشن کو للکارا ہے کہ اب بھی وقت ہے، وہ اپنا محاسبہ کرے اور ایک خودمختار ادارہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ کھرگے اور راہل کی کانگریس نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ حکمراں جماعت، اس کے ذریعہ جمہوری اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوششوں اور طاقتور پروپیگنڈہ مشنری کا مقابلہ باتوں ، الزاموں اور محض احتجاجوں کے ذریعہ اِتنا مؤثر نہیں ہوسکتا جتنا ٹھوس شواہد کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے اُن کی ٹیم نے الیکشن کمیشن کی فراہم کردہ فہرست ِرائے دہندگان کے کئی ہزار صفحات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا اور ایسے انکشافات کئے کہ جن سے چشم پوشی کرنا یا انہیں جھٹلانا الیکشن کمیشن کیلئے ممکن نہیں ہوگا بھلے ہی وہ فوری ردعمل کے طور پر راہل ہی سے یہ مطالبہ کربیٹھے کہ اُنہیں جو کچھ کہنا ہے حلف نامہ داخل کرکے کہیں ۔ حلف نامہ کیوں مانگا گیا؟ اس لئے کہ الیکشن کمیشن اپنی جھینپ مٹاسکے۔
پریس کانفرنس میں جو کچھ بیان کیاگیا وہ الزام نہیں ہے کہ مسترد کردیا جائے یا جیسا کہ آج کل کا طریقہ ہے کہ الزام کے جواب میں الزامات کی خوفزدہ کرنے والی بوچھار کرکے عوام کو گمراہ کیا جائے۔ راہل کا یہ کہنا کہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے علاوہ اُن کی پارٹی کو بھی پہلے سے شک تھا کہ بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کی جارہی ہے، اس لئے درست معلوم ہوتا ہے کہ یہی شک تو عوام کو بھی ہے مگر اب تک کسی سیاسی جماعت نے ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے تھے جو دو روز قبل راہل گاندھی نے کئے ہیں ۔ اِس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ایک جدوجہد سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کانگریس نے برسوں کی غفلت کے بعد اب لڑنا سیکھ لیا ہے۔
اس کا کریڈٹ راہل کو اس لئے دیا جانا چاہئے کہ فہرست ِرائے دہندگان کی سافٹ کاپی نہ ملنے پر ہارڈ کاپی کے ہزاروں صفحات کو چھاننے اور کھنگالنے کی تھکا دینے والی مشقت وہی شخص کروا سکتا تھا جو کنیا کماری تا کشمیر پیدل یاتراکی سخت آزمائش میں اُترنے کی ہمت کر سکتا تھا۔ بہرکیف، راہل نے انتخابی کمیشن کی بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کو طشت از بام کردیا ہے جس سے ملک کے عوام کو واضح پیغام ملا ہے کہ ایک اسمبلی حلقے میں جو کچھ ہوا، ممکن ہے ویسا ہی پورے ملک میں بھی ہوا ہو۔ اِن ٹھوس شواہد کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد انتخابی کمیشن کا طور طریقہ بدلے نہ بدلے اور جمہوریت کے حق میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو نہ ہو، عوام میں بیداری آنے اور اس کے نتیجہ میں جمہوری جدوجہد شروع ہونے کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں ۔ جب عوام بیدار ہونگے اور ایک دوسرے کے ساتھ آئینگے تو بڑی تبدیلی بھی آئیگی کیونکہ جمہوری ملکوں میں عوام ہی بادشاہ گر ہوتے ہیں ۔
راہل اور اُن کی ٹیم نے نظیر قائم کی ہے۔ انتخابی فہرست میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا ایسا انکشاف اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ راہل کا اقدام جتنا قابل ِ تعریف ہے اُتنا ہی تاریخی ہے۔ اس سے اپوزیشن کا اتحاد بھی مستحکم ہوگا۔