’’سنچار ساتھی ایپ‘‘ نئی اُفتاد ہے۔ اگر یہ فائدہ مند ہے اور نقصان دہ نہیں ہے اور اس کےپس پشت کوئی ایسا مقصد نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں جیسا کہ بتایا گیا ہے تو حکومت کہہ سکتی تھی کہ اگر آپ (ملک کے شہری) سائبر فراڈ سے بچنا چاہتے ہیں، ایک ہی سم پر پائے جانے والے ایک سے زائد سم کارڈ (اگر ہیں تو) کی تفصیل جاننے کے خواہشمند ہیں، آپ کا موبائل گم ہوجائے اور اسے تلاش کرنا ہو یا ایسے ہی دیگر فوائدکےحصول سے آپ کی دلچسپی ہے تو سنچار ساتھی ایپ ڈاؤن لوڈ کرلیجئے، یہ کافی مددگار ہوگا۔
’’سنچار ساتھی ایپ‘‘ نئی اُفتاد ہے۔ اگر یہ فائدہ مند ہے اور نقصان دہ نہیں ہے اور اس کےپس پشت کوئی ایسا مقصد نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں جیسا کہ بتایا گیا ہے تو حکومت کہہ سکتی تھی کہ اگر آپ (ملک کے شہری) سائبر فراڈ سے بچنا چاہتے ہیں ، ایک ہی سم پر پائے جانے والے ایک سے زائد سم کارڈ (اگر ہیں تو) کی تفصیل جاننے کے خواہشمند ہیں ، آپ کا موبائل گم ہوجائے اور اسے تلاش کرنا ہو یا ایسے ہی دیگر فوائدکےحصول سے آپ کی دلچسپی ہے تو سنچار ساتھی ایپ ڈاؤن لوڈ کرلیجئے، یہ کافی مددگار ہوگا۔
کسی ایپ کی صلاح دینا یا سفارش کرنا حکومت کا کام نہیں ہے مگر چونکہ ایسا ہورہا ہے ا س لئے صارفین کا مشکوک اور متنبہ ہونا فطری ہے۔ اگر کسی چیز کو قبول یا رد کرنے کا اختیار شہریوں کو دیا گیا ہے تو اس میں کسی سرکاری محکمے کے ’’حکمنامہ‘‘ کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ سنچار ساتھی معاملے میں موبائل ہینڈ سیٹ تیار کرنے والی کمپنیوں سے یہ کہہ دیا جانا شک و شبہ پیدا کرتا ہے کہ جتنے بھی ہینڈ سیٹ تیار ہوں اُن میں سنچار ساتھی ایپ پہلے سے موجود رہے۔ جب اس کے خلاف عوامی برہمی کا احساس ہوا اور اپوزیشن نے اسے موضوع بنالیا تو ٹیلی مواصلات کی وزارت نے وضـاحت کی کہ یہ لازمی نہیں ہے بلکہ اگر صارفین نہ چاہیں تو اسے ڈِلیٹ کرسکتے ہیں ۔ ایپ پری انسٹال کرنے کی ہدایت کے بعد یہ کہنا کہ لازمی نہیں ہے یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ ہینڈ سیٹ بنانے والی کمپنیوں پر اسے لازم کیوں کیا گیا؟
قارئین جانتے ہیں کہ آدھار کارڈ بھی لازمی نہیں تھا۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ آدھار لازمی نہیں ہے مگر دھیرے دھیرے اسے عملاً لازمی کردیا گیا (سوائے بہار ایس آئی آر مہم کے دوران اسے قبول کرنے سے الیکشن کمیشن نے انکار کیا تھا، بعد میں عدالت نے اس کا حکم جاری کیا)۔ اسی طرح ایس آئی آر (بہار) پر اُٹھنے والے اعتراضات کے جواب میں کہا گیا کہ اس کا مقصد شہریت کی جانچ نہیں ہے مگر عملاً کیا ہوا؟ شہریت کی توثیق کی ذمہ داری شہریوں ہی پر آگئی۔ ان تجربات کے سبب صارفین کے دل میں شک و شبہ پیدا ہوا ہے کہ ابھی تو کہا جارہا ہے کہ یہ ایپ لازمی نہیں ہے اورجو صارف نہ چاہتا ہو وہ اسے ڈِلیٹ کرسکتا ہے مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ جس صارف نے اسے ڈلیٹ کردیا، اس کا فون گم ہوجائے تو وہ شکایت کرنے کے قابل بھی نہ رہ جائے اور اُس سے کہا جائے کہ جب آپ نے سنچار ساتھی ہٹا دیا تو آپ کا فون کیسے تلاش کیا جائے۔ ایسا ہی جواب سائبر فراڈ کے وقت بھی مل سکتا ہے۔
موبائل ہینڈ سیٹ میں بہت سے ایپ موجود رہتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ صارف اُن تمام کا استعمال کرے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ ہر ایپ کیلئے طلب کی گئی ’’اجازت‘‘ دے دے۔ اس ضمن میں پورا اختیار صارف کا ہوتا ہے۔ سنچار ساتھی ایپ کا لازم کیا جانا اس اختیار کو سلب کررہا ہے۔
عوام اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی ناراضگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ ایپ ڈیٹا کے تعلق سے بھی شک و شبہ پیدا کرتا ہے۔ اگر ایپ پری انسٹالڈ ہے تو کیا یہ ضمانت بھی پری انسٹالڈ ہے کہ اس کی وجہ سے صارفین کا ڈیٹا ( تصاویر، چیٹنگ، ای میل، ویڈیو وغیرہ) بھی محفوظ رہے گا؟