• Thu, 01 January, 2026
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آج کا دن ڈھلتے وقت یہ ضرور سوچئے!

Updated: December 31, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

سال ایسے گزرا جیسے پلک جھپکتی ہے مگر یہ کہنے کی بات ہے۔ اس میں مبالغہ بھی ہے۔ سال بارہ مہینوں اور تین سو پینسٹھ دنوں کا ہوتا تھا، اب بھی ہوتا ہے۔ ان تین سو پینسٹھ دنوں میں کتنے گھنٹے ہوتے ہیں ؟ ہم کبھی نہیں سوچتے۔ ۸۷۶۰؍ گھنٹے ہوتے ہیں ۔ اور منٹ کتنے؟ ۵؍ لاکھ ۲۵؍ ہزار ۶؍ سو منٹ۔

INN
آئی این این
سال ایسے گزرا جیسے پلک جھپکتی ہے مگر یہ کہنے کی بات ہے۔ اس میں  مبالغہ بھی ہے۔ سال بارہ مہینوں  اور تین سو پینسٹھ دنوں  کا ہوتا تھا، اب بھی ہوتا ہے۔ ان تین سو پینسٹھ دنوں  میں  کتنے گھنٹے ہوتے ہیں ؟ ہم کبھی نہیں  سوچتے۔ ۸۷۶۰؍ گھنٹے ہوتے ہیں ۔ اور منٹ کتنے؟ ۵؍ لاکھ ۲۵؍ ہزار ۶؍ سو منٹ۔ آج شام جب ۳۱؍ دسمبر کا سورج غروب ہوگا، ہم ۸۷۶۰؍ گھنٹے اور ۵؍ لاکھ ۲۵؍ ہزار ۶؍ سو منٹ گزار چکے ہوں  گے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ہوسکتا ہے کہ ہم اتنے دن، اتنے گھنٹے اور اتنے منٹ گزار کر یہاں  تک پہنچے ہیں ؟ بلاشبہ انکار نہیں  ہوسکتا۔
اس کے باوجود لگتا ہے کہ سال ایسے گزرا جیسے پلک جھپکی۔ اس احساس کو، جو ایک قسم کا دھوکہ اور چھلاوا ہے، ماضی کے تین سو پینسٹھ دنوں  کو یاد کرکے دور کیا جاسکتا ہے کہ اتنے دن کیسے گزرے۔ گزرے ہوئے دنوں  کو یاد کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اتنے دن کم سو کر اور زیادہ جاگ کر گزرے یا زیادہ سو کر اور کم جاگ کر گزرے، فعال رہ کر گزرے یا عدم فعالیت کا شکار رہے، تعمیری کام زیادہ ہوئے یا کم ہوئے، کم ہوئے تو کیا اکا دکا پر اکتفا کیا گیا؟ اتنے دن اپنا اپنا دیکھتے ہوئے گزرے یا آس پاس کو بھی دیکھا، عزیزوں  اور پڑوسیوں  کی خبری گیری کیلئے بھی وقت نکالا گیا اور جہاں  کہیں  کسی کے کام آسکتے تھے، کام آئے؟ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کتنا وقت عبادت میں  گزارا اور کتنا دُنیا داری میں  کہ دونوں  ہی ضروری ہیں ۔ پھر یہ کہ فارغ وقت کیسے گزرا؟ کتنی کتابوں  کا مطالعہ کیا؟ اُن کتابوں  سے کیا سیکھا؟ ایک بار پھر عرض ہے کہ یکم جنوری ۲۵ء سے لے کر ۳۱؍ دسمبر ۲۵ء تک ہم ۸۷۶۰؍ گھنٹے گزار آئے ہیں ، اُس سے پہلے بھی ہر سال اتنا وقت گزار کر یہاں  تک پہنچے ہیں ۔ گزرے ہوئے دنوں  کو یاد کرکے ہم خود کو ۱۰۰؍ میں  سے کتنے نشانات یا نمبرات دیں  گے۔ نشانات دینے کے بعد دیکھئے کہ ہم امتیازی درجے میں  ہیں ، اول درجے میں  ہیں  یا دوئم اور سوئم درجے میں ۔کیا اپنے نتیجے پر فخر کرسکتے ہیں ؟ نتیجہ کسی کو دکھا سکتے ہیں ؟
کہنے کی ضرورت نہیں  کہ آدمی لمحوں  میں  نہیں  جیتا، کرموں  (اعمال) میں  جیتا ہے۔ وہ اپنے اپنے میں  نہیں  جیتا، آس پاس میں  بھی جیتا ہے اور وہاں  کیلئے بھی اُس کا دل دھڑکتا ہے جہاں  اُس کا کوئی شناسا نہیں  جیسے کہیں  سیلاب کی تباہی پھیلی ہوئی یا کوئی اور مصیبت آن پڑی ہو اور ہم اُن انجان لوگوں کے کام آئیں  جن سے نہ تو اب تک ملے نہ ہی آئندہ کبھی مل سکنے کی اُمید ہے۔ بہت سے لوگ کسی کار خیر میں  اس لئے شریک ہوجاتے ہیں  کہ اس میں  شرکت آسان ہے مگر وہ کارِ خیر جس میں  زحمت اُٹھانی پڑتی ہے اُس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ کیا ہمیں  یہ سکھایا گیا ہے کہ سہولت ہو تو کارِ خیر کریں ، نہ ہو تو کوئی بات نہیں ؟ آپ واقف ہیں  کہ ہم تک پہنچنے والی تعلیمات بہت واضح ہیں  پھر ہماری شرکت غیر واضح کیوں  ہے؟ دکھائی کیوں  نہیں  دیتی؟ مثال کیوں  نہیں  بنتی؟ اس کے ذریعہ دلوں  میں  جگہ کیوں  نہیں  بنتی؟ 
سال ۲۰۲۵ء کےسوا ۵؍ لاکھ سے زیادہ منٹ گزارنے والا اگر عمر کی ۵۰؍ ویں  منزل پار کرکے اکیاونویں  منزل میں  ہے تو وہ پچاس سال کے ۲؍ کروڑ ۶۲؍ لاکھ، ۸۰؍ ہزار منٹ گزار چکا ہے۔ کہ ’’حساب آسان‘‘ اور ’’احتساب مشکل‘‘ ہے۔ حساب کم عمر طالب علم کرسکتا ہے مگر احتساب زیادہ عمر والے کیلئے بھی دشوارہے۔ اور جہاں  تک ہم نے سمجھا ہے، اُس دن، جسے ’’حساب کتاب کا دن‘‘ کہا جاتا ہے، حساب نہیں  احتساب ہوگا، تب خود احتسابی کا ہمارا اختیار ختم ہوچکا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK