لالہ جی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ملک یا یہ سر زمین صرف ہندوؤں کی ہے۔ ہندوستان کی مذہبی اور تہذیبی رنگا رنگی ساورکر کیلئے مسئلہ تھی مگر لاجپت رائے کیلئے رنگا رنگی نہ صرف قابل قبول تھی بلکہ وہ کثرت میں ہی وحدت کے قائل تھے۔
EPAPER
Updated: May 31, 2024, 1:53 PM IST | Mumbai
لالہ جی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ملک یا یہ سر زمین صرف ہندوؤں کی ہے۔ ہندوستان کی مذہبی اور تہذیبی رنگا رنگی ساورکر کیلئے مسئلہ تھی مگر لاجپت رائے کیلئے رنگا رنگی نہ صرف قابل قبول تھی بلکہ وہ کثرت میں ہی وحدت کے قائل تھے۔
’’بی انگ ہندو بی انگ انڈین‘‘ وانیا ویدیہی بھارگو کی کتاب ہے جو پینگوئن نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے ہمارے ایک بڑے قومی رہنما لالہ لاجپت رائے کے ہندوستانی قومیت سے متعلق بدلتے خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے بعض بہت اہم باتیں کہی ہیں مثلاً ابتدا میں تو لالہ جی سمجھتے تھے کہ ہندو، بودھ، سکھ، جین ہی ایک راشٹر ہیں مسلمان اور عیسائی الگ راشٹر ہیں مگر ۱۹۱۵ء میں یعنی پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے اپنے اس خیال کو تبدیل کرکے کہا کہ بھارت ایک ہی راشٹر ہے اور ہندو مسلمان دونوں اسی کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو نہ صرف آریہ (قدیم) تسلیم کیا ہے بلکہ دونوں کو آریہ منگول کی مخلوط نسل کا خون بھی بتایا ہے۔ اس تصور میں تبدیلی مذہب کے نتیجے میں مسلمان ہونے کا تصور موجود ہے مگر راقم الحروف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ان لوگوں پر رشک کیا جانا چاہئے جنہوں نے اندھیرے سے اجالے کا سفر کیا۔ ابوجہل، ابو لہب اور شمر کی اولاد بھی اگر ایمان و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے تو مثال کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکیزہ تر نسبت کے باوجود جنہوں نے اندھیروں سے نسبت جوڑ لی وہ اپنے فیصلے کے خود ذمہ دار ہیں ۔
لاجپت رائے ایک نامور وکیل، اُردو اور انگریزی کے بے باک مقرر اور فطری قائد تھے۔ بچپن سے ہی مذہب میں اصلاح کیلئے فکرمند رہتے تھے کیونکہ ان کے والد نے مذہب اسلام اپنا لیا تھا مگر بیٹے نے توحید کو دین اسلام کے بجائے سوامی دیانند سرسوتی کی تحریک کے زیر اثر ویدوں اور قدیم ہندو تہذیب میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ قومیت سے متعلق ان کے خیالات بدلتے گئے۔ ۱۸۸۰ء اور ۱۹۱۵ء کے درمیان جو ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ راشٹر کی شکل میں دیکھتے تھے وہ ۱۹۱۵ء سے یہ سوچنے لگے کہ ہندو، مسلمان اور ہندوستان میں دیگر مذاہب کے ماننے والے کن بنیادوں پر ایک ہوسکتے ہیں ۔ اس تلاش یا کوشش نے انہیں عہد وسطیٰ کی تاریخ کو ایک نئے انداز سے دیکھنے، سمجھنے کی ضرورت کا احساس دلایا۔ ۱۹۲۰ء تک انہیں یہ احساس بھی ہوچکا تھا ایک مضبوط بھارتی راشٹر ہندو مسلمان اتحاد کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے خلافت تحریک کی حمایت کی۔ اس کے بعد تو انہوں نے اسی خیال کی اشاعت شروع کر دی کہ کانگریس کا راشٹر واد ہی اصل راشٹر واد ہے جو ہندوستان کی مختلف مذہبی جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ وہ کانگریس کے بھی قریب تھے اور ہندو مہا سبھا کے بھی۔ کانگریس میں انہیں ’گرم دل‘ کے قریب تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ حکومت وقت کے خلاف احتجاج میں عوام کو بھی شریک کرنا چاہتے تھے ہندو مہا سبھا اور اس کی ہم فکر جماعتیں یا افراد کبھی کبھی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر دیتی تھیں مگر لالہ جی اس انتہا پسندی کو قومی تحریک کیلئے غلط سمجھتے تھے۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ احیاء پسند جماعتوں میں ان کی حیثیت ’نرم دل‘ سے تعلق رکھنے والے کی تھی۔
بعد کے دور میں انہوں نے ’راشٹر‘ کا لفظ ایک بڑی جماعت کے معنی میں استعمال کیا ہے اس کو راجیہ یا سرکار کا متوازی نہیں سمجھا ہے اور ہندو سنسکرتی کو سب پر مسلط کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ ’ہندو راشٹر‘ کا استعمال کہیں کیا بھی ہے تو ہندوستانی راشٹر کے معنی میں ۔ ان کا ایک مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرنے سے پہلے خود ہندوؤں کو متحد کرنا تھا۔ ان کے ہندو راشٹر واد کو موجودہ ہندوتوا کے ساتھ قطعی نہیں جوڑا جاسکتا۔ وہ مذہب اور سیاست کو ایک کرنے کے بھی خلاف تھے۔ انہوں نے بہت واضح اشارے کئے ہیں کہ مذہب اور سیاست کا ملایا جانا علاحدگی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ لاجپت رائے کے راشٹر واد اور ساورکر کے راشٹر واد میں کیا فرق تھا؟ فرق یہ تھا کہ ساورکر کا اصرار تھا کہ بھارت ہندو راشٹر ہے، اس کو اپنی ہندو سنسکرتی (ثقافت) ہے اسلئے اس کا حصہ بننے کیلئے ہندو سنسکرتی کو اپنانا یا اسکے تفوق کو قبول کرنا ضروری ہے۔ لاجپت رائے نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ ملک یا یہ سر زمین صرف ہندوؤں کی ہے۔ ہندوستان کی مذہبی اور تہذیبی رنگا رنگی ساورکر کیلئے مسئلہ تھی مگر لاجپت رائے کیلئے رنگا رنگی نہ صرف قابل قبول تھی بلکہ وہ کثرت میں ہی وحدت کے قائل تھے۔ وہ ہندو مہا سبھا میں ضرور تھے مگر ہندو مذہبی ریاست کے قائل نہیں تھے۔ وہ غیر مذہبی ریاست میں ہندوؤں کو خصوصی اختیارات یا حقوق دیئے جانے کے بھی خلاف تھے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ حکومت کسی ایک مذہب کی سرپرستی کرے۔
مگر آریہ سماج نے جس کی بنیاد ۱۸۷۵ء میں ممبئی میں رکھی گئی تھی اور جس کی تنظیمی طاقت پنجاب، راجستھان، دہلی، یوپی اور ان علاقوں میں بڑھتی گئی تھی جہاں مسلمانوں کی اچھی تعداد تھی، شولاپور میں اپنا مرکز بنا کر نظام شاہی کیخلاف زور دار تحریک چلائی اور اصلاحی تحریک سے سیاسی فائدے بھی حاصل کئے، ملک بھر میں اسکولوں کالجوں کا جال بھی پھیلایا مگر اسکے جواب میں جو ماحول مسلم علاقوں میں پیدا ہوا وہ خالص جذباتی تھا اس سے تصادم کو ہوا دینے والی سیاست کو فائدہ پہنچا۔ آریہ سماج اب بھی قائم ہے، اس کے قائم کئے ہوئے ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اس نے ماضی پرستی اور انتہا پسندی میں بسی ہوئی قوم پرستی کا جو صور پھونکا تھا وہ ’ہندوتوا‘ کی صورت میں دوسروں کے ہاتھ لگ چکا ہے جس کو وہ ’حربہ‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ’وحدانیت‘ کا اس کا درس کمزور پڑا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ بھول گئے کہ چنگیز و ہلاکو نے کیا کیا تھا یا حالیہ دور میں روس و چین میں مساجد کے ساتھ کیا ہورہا تھا مگر حالات کس طرح بدلے؟ پوتن کے دور میں کئی ہزار مساجد روس میں تعمیر ہوئی ہیں اور آباد بھی ہیں ۔ چین میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسجد بن رہی ہے۔ ہندوستان کا ہر مسلمان چاہے وہ کسی مکتب فکر یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے، محبت کیلئے جان دینے کو تیار رہتا ہے مگر محبت اور پرستش میں فرق کرتا ہے۔ تقسیم ملک بدیسی طاقتوں کے ذہن کی پیداوار تھی اور اس کی تائید کی تھی ان لوگوں نے جو ’اقتدار‘ کے وفا دار تھے۔ وانیا ویدیہی بھارگو کی یہ کتاب یاددہانی کرتی ہے کہ کسی زبان، کسی مذہب، کسی ثقافت کو مسلط کرنے کا نام ’راشٹر واد‘ نہیں ہے بلکہ ہر زبان، مذہب، ثقافت کو پھلنے پھولنے دینے لیکن علاحدگی پسندی اور انتہا پسندی کا ہر سطح پر قلع قمع کرنے کا نام ہے۔