ہربنس مکھیا ہمارے عہد کے ممتاز تاریخ داں ہیں جنہیں عہد ِ وسطیٰ کی تاریخ پر بڑی دسترس حاصل ہے۔ شاعری بھی اُن کی شخصیت کا اہم پہلو ہے۔ اِس مضمون میں اُن کی چند نظموں سے بحث کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: September 08, 2025, 1:47 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
ہربنس مکھیا ہمارے عہد کے ممتاز تاریخ داں ہیں جنہیں عہد ِ وسطیٰ کی تاریخ پر بڑی دسترس حاصل ہے۔ شاعری بھی اُن کی شخصیت کا اہم پہلو ہے۔ اِس مضمون میں اُن کی چند نظموں سے بحث کی گئی ہے۔
ہربنس مکھیا نے اپنی نظموں کو اداس نظمیں کہا ہے اور پیش لفظ میں وضاحت کی ہے: ’’سچ تو یہ ہے کہ میں نے ایک طویل عمر گزار دی بغیر کسی بہت بڑے دکھ یا غم کا سامنا کئے۔‘‘ تو سوال یہ ہے کہ یہ اداسی کہاں سے آئی۔ شاعری ان کے نزدیک سوانح نہیں ہے اسی لیے وہ زور دیتے ہیں کہ ان نظموں میں جو اداسی ہے وہ شخصی طور پر ان کی نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ نظموں کی اداسی میری اداسی نہیں ۔ یہ بات ہربنس مکھیا سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اداسی کسی کی ذات میں کبھی اتنی خاموشی کے ساتھ آجاتی ہے کہ اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اداسی چھپی بیٹھی رہتی ہے۔ یہ فرق کرنا بہت مشکل ہے کہ شخصی اداسی کب تاریخی اداسی بن جاتی ہے اور کب تاریخی اداسی شخصی اداسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہربنس مکھیا ایک تاریخ دان کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں خصوصاً عہد وسطیٰ کی تاریخ کے سلسلے میں ۔ تاریخ نویسی کے ایک لمبے سلسلے اور سفر کے بعد تاریخ اور وقت کو نظموں کے وسیلے سے سمجھنے کی کوشش دراصل تاریخ کو خیال کی ایک خاص سطح تک لے جا کر دیکھنا ہے۔ تاریخ کا خیال سے کیا رشتہ ہے، اس سوال کا جواب تاریخ نویسی کے قدیم اور جدید اصولوں سے مل سکتا ہے۔ ہربنس مکھیا کی نظموں میں تاریخ کئی طرف سے اپنی موجودگی درج کراتی ہے۔ ایک تاریخ وہ ہے جس کے دھارے پر پوری انسانی آبادی ہے، اور ایک وہ تاریخ ہے جس کا رشتہ فرد واحد کے دکھ سکھ سے ہے۔ دونوں تاریخیں ہربنس مکھیا کے یہاں کہیں کہیں مل گئی ہیں مگر زیادہ تر صورتوں میں یہ الگ الگ طور پر ظاہر ہوتی ہیں ۔
تاریخ کو موضوع بنانے کی روایت اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ مگر تاریخ ہر حساس شخص کو اپنے طور پر متاثر بھی کرتی ہے اور پریشان بھی۔ ایک وقت ہے جو کبھی اتنا شور مچاتا ہے کہ پھر کچھ سنائی نہیں دیتا۔ماضی وقت کا کوئی ٹھہرا ہوا علاقہ تو نہیں ۔ اسی لیے ہربنس مکھیاکے یہاں ماضی کا حوالہ صرف گزرے ہوئے وقت کا حوالہ نہیں رہ جاتا۔ وقت کی صورتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ایک ہی وقت میں ایک طرح سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تاریخ نویس کا تاریخ کو نزدیک اور دور سے دیکھنے کی خواہش کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے۔ اسی لئے ہربنس مکھیا کی کچھ اداس نظمیں اختصار کے ساتھ کہیں کہیں تاریخ میں بہت دور تک سفر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن وقت ہے کہ ان کی نظموں میں اپنی فتح کا اعلان کرتا ہے۔ پھر بھی ایک مورخ زندگی اور کائنات کو نئی نظر سے دیکھتے ہوئے امید کا دامن چھوڑنا نہیں چاہتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ امید سر جھکائے وقت کے فیصلے کا انتظار کرتی ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو مکھیا کی نظموں میں بار بار سر اٹھاتا ہے۔
ہربنس مکھیا کی ایک نظم ’’ہمارا ماضی‘‘ ہے جس میں ماضی کو ایک پرچھائیں کی صورت میں دیکھا گیا ہے جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ۔ماضی کو دفن کر کے حال کی طرف قدم بڑھانا یا حال کا ہو جانا کتنا دشوار ہے۔ مکھیا نے اپنی نظم ’’تاریخ‘‘ میں ایک ایسی خواہش کا اظہار کیا ہے جس کا رشتہ ہمارے زمانے کی نئی تاریخ نویسی سے بہت گہرا ہے مگر فرق کتنا ہے۔کہتے ہیں :
’’ہم نے کتنی ہی بار/ تاریخ کو ازسر نو لکھنے کا ارادہ کیا/ ہم نے تاریخ کو گھوڑا بنایا اور اس پر سوار ہوئے/ جس کی سمت اور رفتار/ ہمارے عزم کی محتاج تھی/ کبھی ہم نے اس گھوڑے کو محض ایک تصور سمجھا/ جس کے جسم کی قوت اور پیروں کی تعداد/ فقط ہمارے ذہن کی ایجاد تھی/ پھر کبھی یہ گھوڑا پتھر بن گیا/ جس کے پیروں کے نیچے پہیے لگے تھے/ اس کی سمت اور رفتار پر/ کسی کا کوئی قابو نہیں تھا/ کبھی ہم نے تلوار اٹھا کر/ اور کبھی اصولوں کا جال بن کر/ تاریخ پر اختیار بٹھایا/ آج لگتا ہے دراصل/ ہم تاریخ کے روبرو کتنے ناچار ہیں / گویا اس نے ہم سے ہمیشہ آنکھ مچولی کھیلی ہو!‘‘
ہربنس مکھیا تاریخ کو ٹکڑوں میں نہیں دیکھتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تاریخ کا کوئی لمحہ ان کے خیال کی رو کو کسی مخصوص سمت میں فعال کر دیتا ہے اور پھر وہ لمحہ اپنے شخصی اور تاریخی سیاق کے ساتھ کچھ ٹھہر سا جاتا ہے۔ تاریخ سے کس کو کیا ملا ہے اس پر ناز کرنے کا مطلب تاریخ کو مختلف حوالوں سے دیکھنا ہے۔ ان کی ایک نظم ’’وہ لمحہ‘‘ تاریخ کے کسی خاص موڑ کا پتہ دیتا ہے جو بظاہر شخصی ہے. اسی طرح کی ایک نظم ’’جرم‘‘ بھی ہے۔ گویا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت کی گرفت سے ہم آزاد ہیں مگر پھر وقت ہمیں اپنی عدالت میں لے آتا ہے۔ ہربنس مکھیا کیلئے وقت صرف ماضی نہیں بلکہ حال ہے جو اپنے کٹے پھٹے چہرے کے ساتھ اخبار کی سرخیوں میں دکھائی دیتا ہے اور پلاسٹک کے تھیلوں کی تعداد میں بھی اور مزدور بچوں کی تصویروں میں بھی۔ کیسی بے بسی ایک مورخ کی ہے کہ وہ اپنی پریشانی میں ہی ان مسائل کا حل ڈھونڈ رہا ہے۔ ایک نظم ’’وقت‘‘ ہے مگر یہ وہ وقت ہے جو کسی باغی اور عاشق کا ہے جس میں انکار کی قوت رہی ہے۔ ہربنس مکھیا کی ایک نظم ’’مہاجر‘‘ بھی ہے جس میں مبارک علی، ٹونک ( راجستھان) سے اپنے ہاتھوں میں بارش کا پانی لے کر کراچی کی ٹرین میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان دنوں سیلاب اور برسات نے جو صورتحال پیدا کی ہے، اس میں یہ نظم کتنی مختلف تاثر کی حامل ہے:
’’اس روز بہت بارش ہوئی تھی/ وہ ساری بارش/ مبارک علی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں / سمیٹ کر/ اپنے ساتھ لے گئے/ انہیں لگا جیسے کہیں اور کا پانی اتنا میٹھا نہ ہوگا/ عرصہ گزرا/ مبارک علی کا گھر پھولا پھلا/ وہ خود باپ بنے/ لیکن پانی ابھی بھی وہی پیتے/ جو اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لائے تھے/ پھر ایک دن/ وہ پانی ختم ہونے کو آیا/ تو مبارک علی واپس ٹونک آئے/ پر اس بار/ وہاں کی گلیوں میں انہیں / کڑی دھوپ ملی/ دھوپ اور سوکھا/ اس بار ٹونک میں بارش نہیں ہوئی تھی۔‘‘
انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی کی شائع کردہ ’’کچھ اُداس نظمیں ‘‘، جس کا تعارف پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے، کی اشاعت کیلئے ڈاکٹر اطہر فاروقی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں ۔