چند روز قبل اعلان کیا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ہندی کے معروف شاعر و ادیب ونود کمار شکل کو دیا جائیگا۔اس سی مناسبت سے اُن کی چند نظموں پراظہار خیال:
EPAPER
Updated: April 01, 2025, 5:27 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
چند روز قبل اعلان کیا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ ہندی کے معروف شاعر و ادیب ونود کمار شکل کو دیا جائیگا۔اس سی مناسبت سے اُن کی چند نظموں پراظہار خیال:
حالیہ اعلان کے مطابق گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والے ونود کمار شکل کی یہ نظم بہت پہلے پڑھی تھی جو اَب بھی یاد ہے۔ نظم نے جو پہلے کہا تھا وہ کیا کم ہے کہ اس سے کسی اور بات کا تقاضا کیا جائے۔ نظم کا ’’شخص‘‘ اب ایک آبادی کی نمائندگی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے ونود کمار شکل کی نظر میں یہ شخص آبادی کا استعارہ ہو۔ ایک شخص ہے جسکے ساتھ انسانی آبادی مایوس ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ اس نظم کا ’’شخص‘‘ بدلتی ہوئی صورتحال میں اپنی صورت کو تبدیل نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مایوسی اور نا امیدی کی کیفیت اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ مایوسی کے مختلف اسباب اور محرکات ہو سکتے ہیں لیکن مایوسی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک جیسی ہوتی ہے۔ اپنی زندگی میں ایک شخص اگر یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ کوئی جنگ ہار چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں جو جنگیں ہو رہی ہیں ان کا اثر بھی اس نے قبول کیا ہے۔ اپنی ذات کے حوالے سے جو جنگ لڑی جاتی ہے اس کا گواہ بھی کون ہے۔مایوسی کو بہت وقت لگتا ہے اس کیفیت تک پہنچنے میں ۔
نظم کے یہ مصرعے دیکھئے: مایوس ہو کر ایک شخص بیٹھ گیا تھا / مایوس شخص کو میں نہیں جانتا تھا/ مایوسی کو جانتا تھا/ اس لیے میں اس شخص کے پاس گیا/ میں نے ہاتھ بڑھایا / میرا ہاتھ پکڑ کر وہ کھڑا ہوا/ مجھے نہیں جانتا تھا/ میرے ہاتھ بڑھانے کو جانتا تھا/ ہم دونوں ساتھ چلے/ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے/ ساتھ چلنے کو جانتے تھے۔جو حالات درپیش ہیں انہیں کسی ایک واقعے کی روشنی میں سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔ ایک واقعہ مختلف واقعات سے داخلی طور پر وابستہ ہے۔ حالات نے مایوسی میں اضافہ کیا ہے یا اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، اس پر غور کرنے سے پہلے اپنی وابستگی کو تمام وابستگیوں سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ وابستگی چاہے کسی بھی نظریے یا طبقے سے ہو اس سے ہمدردی کا ہو جانا فطری ہے لیکن حالات کے تجزیے اور تفہیم میں کچھ فاصلے کی بھی ضرورت پڑتی ہے ورنہ تو تجزیہ جانبدارانہ ہو جاتا ہے۔ مکمل طور پر خود کو کسی نظریہ سے الگ رکھنا ممکن نہیں ۔ پھر بھی ایک ایسا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس میں جذباتیت کم ہو۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے عموماً ہم جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اس کیفیت سے خود کو نکالنے کیلئے حالات پر مختلف زاویوں سے غور کرنا چاہئے۔ غور و فکر کا عمل جب اپنے تناظر کو بڑا کر لیتا ہے تو تحریر اور تقریر منطقی ہو جاتی ہے اور سماجی و تہذیبی زندگی میں اہم کردار بھی ادا کر تی ہے۔ تاریخ میں جذباتی تحریر اور تقریر کی ایک روایت موجود ہے۔ اس روایت کو صرف اس بنا پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ تحریر اور تقریر کرنے والے نے غیر جذباتی رویہ اختیار نہیں کیا۔
روایت کے کاندھے پر تاریخ کے تضادات کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ مایوسی کی اتنی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ ہر صورت ذرا دیر میں مانوس ہو جاتی ہے۔ مانوسیت مایوسی کو راہ دیتی ہے۔ کبھی کسی مسئلے پر غور کرتے ہوئے یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں کچھ زیادہ تو نہیں سوچ لیا۔ ایک شخص کو مایوسی کے عالم میں اب کون کہاں اور کتنا دیکھتا ہے۔ مایوسی رفتہ رفتہ وجود کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ ایک شخص کی مایوسی ایک آبادی کی مایوسی تو نہیں ۔ پھر بھی مایوسی کی گہرائی اور شدت معاشرہ کی مجموعی صورتحال کا پتہ دیتی ہے۔ مایوسی مسکرانا بھول جاتی ہے، تھک ہار کر حالات کو قبول کر لیتی ہے۔ فرد اور قوم پر یہ زمانہ بہت مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ تاریخ اور روایت سے بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دنیا نے صرف ہم پر مظالم ڈھائے ہیں ، اپنی غفلت اور کوتاہی کسی اور کی غفلت اور کوتاہی کیسے ہو سکتی ہے۔ مایوسی کے عالم میں احتجاج کی کوئی صورت زندگی کے آثار پیدا کر دیتی ہے۔ سیاستداں کی نظر ایک شاعر اور ادیب کی نظر تو نہیں ہے لیکن ہر ادبی تحریر کسی نہ کسی طور پر اپنے عہد کی عکاسی کرتی ہے۔ مایوس ہو کر کسی شخص کا بیٹھ جانا، سستانا اور دم لینا بھی ہو سکتا ہے، بشرطیکہ سینے میں کوئی آگ راشن ہو۔ زمانہ سمجھتا ہے کہ ایک شخص بیٹھ گیا ہے، مایوس ہے مگر مایوسی کی بھی ایک بے چینی ہے جو دنیا کو دکھائی نہیں دیتی۔ ونود کمار شکل نے اس بے چینی کو محسوس کر لیا تھا۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ مایوس شخص کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ مایوسی کے ساتھ ہیں ۔ دُنیا پر نگاہ ڈالیے تو ہشاش بشاش اور ہر طرح آسودہ حال لوگوں کے درمیان ایک زندگی بہت مایوس دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک زندگی ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک دَور کی ہے جس میں سبھی شامل ہیں ۔ مایوسی کا سبب وہ خوف بھی ہے جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ خوف کی نفسیات میں جینے والے لوگ رفتہ رفتہ اپنے وسائل کو بھی کھو دیتے ہیں ۔ مایوسی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ وقت اس کی شدت کو کم ضرور کر دیتا ہے مگر وہ اندر ہی اندر سرگرم عمل رہتی ہے۔ مایوسی نے مستقبل کو بھی اندھیرے خطے کی طرح بنا دیا ہے۔ ونود کمار شکل نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ’’دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، ساتھ چلنے کو جانتے تھے‘‘۔ یہ دو مصرعے آفاقی ہیں ، ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ یہ ساتھ چلنا اُس ساتھ چلنے سے مختلف ہے جس میں بظاہر ساتھ چلنا ہے۔ سوال اور جواب کی فضا مسافر کو فکری سطح پر تازہ دم رکھتی ہے مگر جب نظریاتی طور پر زمین تنگ ہوتی جائے تو اسے ساتھ چلنا کہاں کہتے ہیں ۔ پھر بھی ساتھ ہو جانے اور ساتھ کر لینے کا ایک روشن پہلو ہے۔ ساتھ ہونا ہی بڑی بات ہے۔ اس میں طاقت بھی ہے اور اپنا دکھ سکھ بیان کرنے اور بدگمانی دور کرنے کا موقع بھی ہے۔
ایک زمین پر ایک آسمان کے نیچے رہنے والے لوگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ زمینیں ایک جیسی ہیں ، آسمان کا رنگ بھی ایک جیسا ہے، ہماری آنکھیں بھی ایک ہی طرح نم ہوتی ہیں ، دل بھی ایک ہی طرح سے دھڑکتا ہے، کبھی خود کو الگ دیکھنے اور سمجھنے کا غرور بھی پیدا ہو جاتا ہے مگر پھر ہم اصل کی طرف آ جاتے ہیں ۔ ہماری خوشیوں اور رنجشوں میں بھی ایک وحدت ہے۔ بارش میں ایک ساتھ بھیگتے ہوئے لگتا ہے فطرت ہم سب کیلئے ایک جیسی ہے۔ ایک اور نظم ’’اپنے حصے میں لوگ آکاش دیکھتے ہیں ‘‘ میں چاند، آکاش اور وقت کو دیکھنے والے کی لاچاری کا اظہار ہے۔ اپنے حصہ میں دیکھنے کا مفہوم اپنا حصہ ہی ہے مگر اسی میں سب کا حصہ بھی ہے۔ ایک وقت ہے جو سب کیلئے ایک جیسا نہیں ہے۔ یہ مصرعے دیکھیے: ’’سب کے حصے کی ہوا وہی ہوا نہیں ہے/ اپنے حصے کی بھوک کے ساتھ/ سب نہیں پاتے اپنے حصے کا پورا بھات/ بازار میں جو دِکھ رہی ہے/ تندور میں بنتی ہوئی روٹی/ سب کے حصے کی بنتی ہوئی روٹی نہیں ہے۔‘‘ ونود کمار شکل کی شاعری محروم انسانوں کی ’’محرومیت‘‘ کا نوحہ ہے، اسے ڈوب کر پڑھنا چاہئے۔