Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی ایک صدارتی تقریر

Updated: July 28, 2025, 1:29 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai

ڈاکٹر انصاری زبان اور لکھاوٹ کو کسی خاص طبقے کی پہچان قرار نہیں دیتے۔ رسم خط کے بارے میں ان کا خیال بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی زبان اور رسم خط کو سیکھ سکتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ڈاکٹر انصاری کی یہ تقریر خطبہ ٔصدارت آل کرناٹک ہندی پر چار سبھا میسور کے عنوان سے ۱۹۲۹ء میں  شائع ہوئی تھی۔ کم و بیش۹۶؍ برس تقریر پر گزر گئے ہیں  مگر اسے پڑھتے ہوئے اب بھی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تازگی ان خیالات اور افکار کے سبب پیدا ہوئی ہے جن میں  عربی اور ناگری رسم خط کو کشادہ ذہنی کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔۱۹۲۹ء کا زمانہ سیاسی اور سماجی اعتبار سے انتشار کا تھا لیکن انتشار کی صورت نے ہندوؤں  اور مسلمانوں  کو متحد کر دیا تھا۔ زبان اور رسم خط کے تعلق سے انتشار اور اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں  بہت پہلے سے چلی آرہی ہیں ۔ مختار احمد انصاری نے تقریر کی ابتدا میں  اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہیں  اس سبھا میں  کیوں  کر بلایا گیا۔ وہ خود اس سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ انہیں  یہ کہنے میں  کوئی جھجک نہیں  کہ وہ ہندوؤں  اور مسلمانوں  کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہندی پرچار سبھا میں  ہندو اور مسلمان کے اتحاد کا ذکر کرنا گویا زبان کو کسی خاص فرقے سے مخصوص کر کے دیکھنا ہے مگر ڈاکٹر انصاری اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ عربی رسم خط کو ناگری سے مختلف سمجھنے کا مطلب اسے دور دراز علاقے کا تصور کرنا ہے۔ ناگری سے قربت کا مطلب یہ نہیں  کہ عربی رسم خط کو بے دخل کیا جائے۔ لہٰذا ہندی پرچار سبھا میں  ہندوؤں  اور مسلمانوں  کے درمیان اتحاد پر زور دینا گویا اس ہندی یا ہندوستانی زبان کو فروغ دینا ہے جو ہماری مشترکہ تہذیب کا بہترین حوالہ ہے۔
 یہاں  ہندی یا ہندوستانی سے جو مراد ہے وہ ایک ایسی زبان ہے جس میں  فارسی اور سنسکرت کی مشکل پسندی نہ پائی جاتی ہو۔ زبانوں  کے بارے میں  چاہے جتنا بھی وسیع تر رویہ اختیار کیا جائے ان کا رشتہ کسی نہ کسی طور پر مخصوص فرقے اور معاشرے سے پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ ڈاکٹر انصاری فرماتے ہیں : ’’میرے نزدیک تو ہندوستانی زبان اسی دوستی کا ایک نشان ہے اور ان تہذیبوں  کے میل جول کا نتیجہ ہے جنہیں  خدا نے اپنی حکمت سے ہمارے دیش میں  ایک جگہ کر دیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر انصاری مسلمانوں  اور ہندوؤں  کی ہندوستان میں  یکجائی کو خدا کی حکمت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ وہی رویہ اور عقیدہ ہے جو ہر ہندوستانی کو سچا ہندوستانی بناتا ہے ورنہ تو مذہب کی بنیاد پر اگر قوموں  کو دیکھا جائے تو ہر قوم صرف اپنے مذہب کی نمائندہ قرار پائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ مخصوص طبقے کی مذہبی زندگی اپنی شناخت کے ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ ایک دیرینہ رشتہ قائم کر لیتی ہے۔
  ڈاکٹر انصاری زبان اور لکھاوٹ کو کسی خاص طبقے کی پہچان قرار نہیں  دیتے۔ رسم خط کے بارے میں  ان کا خیال بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی زبان اور رسم خط کو سیکھ سکتا ہے۔ اور یہ لازمی ہے کہ اس زبان اور رسم خط کی تہذیبی اور حسی خوبیاں  اس شخص میں  غیر شعوری طور پر منتقل ہو سکتی ہیں ۔ گویا ہر زبان اپنی روش کے ساتھ کچھ منفرد خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر انصاری فرماتے ہیں : ’’اس لیے میں  بہت خوش ہوا کہ آپ نے یہ موقع دیا ہے کہ یہاں  آکر سب ہندوستانیوں  کی ایک ملی جلی زبان کی بابت جو کچھ میرا خیال ہے وہ آپ سے کہوں ۔‘‘
 ڈاکٹر انصاری کو ملی جلی تہذیب اور ملی جلی زبان ہندوستان کی روح معلوم ہوتی ہے۔ وہ دکنی اردو یا دکنی زبان کے بارے میں  لکھتے ہوئے اس کی تہذیبی قوت کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں ۔ یہ قوت جنوبی ہند میں  زبان کے وسیلے سے کیوں  کر پیدا ہوئی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب وہاں  کی ملی جلی زبان اور تہذیب میں  تلاش کرتے ہیں ۔ انہیں  اس بات کا بھی شدید احساس ہے کہ پہلی مرتبہ یہ ہندوستانی زبان جنوب میں  ایک مشترکہ تہذیبی قوت کے طور پر ابھری ہے۔ یہ سعادت جنوب کے حصے میں  نہیں  آئی۔ یہ زبان کے وسیلے سے ایک ایسا تجربہ تھا جو ہمارے لیے رہنما اصول کی طرح تھا۔ زبان کی تشکیل اور تعمیر کے تعلق سے ڈاکٹر انصاری کا ذہن بہت زمینی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
 ’’یہ تو سب مانیں  گے کہ آپس میں  میل جول سے جو ضرورتیں  پیدا ہوتی ہیں  ان کا زبان پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ معاشی اور آرتھک ضرورتوں  سے بھاشا میں  کتنے ہی نئے نئے لفظ اجاتے ہیں ، اسی میل جول سے چھوٹے چھوٹے گاؤں  کی زبان پڑھ کر کسی صوبے کی زبان اور یہ بڑھ کر ساری قوم سارے دیس کی زبان بن جاتی ہے۔‘‘
 زبان اپنی فطرت کے ساتھ ہوتی ہے مگر اسے بولنے اور لکھنے والے اپنی سیاست کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں ۔ڈاکٹر انصاری کی نگاہ اس تلخ سچائی پر بھی مرکوز ہے کہ شعوری طور پر جب ایک گروہ اپنی زبان کو ملی جلی بھاشا میں  زیادہ ملانا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں  تنگ نظری سامنے آتی ہے۔ اگر ملی جلی زبان کسی مخصوص علاقائی زبان کے ساتھ فطری طور پر قریب دکھائی دیتی ہے تو اسے زبان کی فطرت کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر انصاری کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے: ’’کسی ایک صوبے کی بات چیت کا انداز بھاشا میں  جان بوجھ کر ملایا جائے دوسروں  کا نہیں ، تو پھر یہی سب چیزیں  راشٹری بھاشا کی ترقی میں  رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ یہی بات ہے کہ میں  ان کوششوں  سے بہت ڈرتا ہوں  جو ہندوستانی زبان کو مسلمانوں  کی زبان بنانے کے لیے عربی لفظ ٹھونس کر اور ہندوؤں  کی زبان بنانے کے لیے سنسکرت ملا کر عمل میں  لائی جاتی ہیں ۔ جو لوگ اپنے دیش کے لوگوں  سے بات چیت ہی نہیں  کرنا چاہتے ۔‘‘

یہ بھی پڑھئے : جن سنگھ، بی جے پی، قول وفعل کا تضاداَور تبدیلیٔ موقف

 تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وقفے وقفے سے فارسی اور سنسکرت ہندوستانی زبان کے ساتھ اپنی وقتی بلکہ حد سے بڑھی ہوئی قربت کا اظہار کرتی رہی ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے بول چال کی زبان کو بنیادی ضرورت کے طور پر دیکھنے کے ساتھ ساتھ زبان کی معیار بندی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے مگر یہ منزل بعد کی ہے۔ وہ صاف طور پر لکھتے ہیں  کہ ہندوستانی بھاشا سنسکرت اور عربی نہیں  ہے اور نہ ہو سکتی ہے، یہ تو صرف ہندوستانی ہے جسے ایک بڑے دیس کے رہنے والوں  نے اپنی تہذیبی ضرورت کے سبب بنایا اور مانجھا ہے۔ انہیں  خوف عربی اور سنسکرت کے ان الفاظ سے ہے جن کی وجہ سے یہ ملی جلی زبان اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔ گویا جو زبان میل جول کی ہے اسی سے میل جول کو بھی تقویت ملے گی۔ زبان اور بھاشا کی خوبصورتی رفتہ رفتہ سامنے آتی ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے اس خوبصورتی کو انسان کے داخل کی آگ سے تعبیر کیا ہے۔ پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر انصاری کی نظر میں  زبان روز مرہ کی زندگی میں  اپنا کردار ادا کرتے کرتے دل کی تپش کا حصہ بن جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK