ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں، ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے، بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2025, 5:40 PM IST
|
Afsha Malik
ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں، ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے، بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں، ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے، بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ شہلا اپنے کمرے میں اپنی کسی دلچسپی میں مگن تھی اور ملازمہ معمول کے مطابق باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔
ناصر کی شادی کو ایک سال ہونے والا تھا لیکن امّاں نے ابھی تک اس کی بیوی شہلا کو گھر کی ذمہ داریوں سے دور ہی رکھا تھا۔ وہ خود ملازمہ کے ساتھ مل کر بڑی خوش اسلوبی سے گھر چلا رہی تھیں۔ لیکن اب ناصر چاہتا تھا کہ شہلا گھر کی ذمہ داریوں کو سنبھال لے۔ وہ جب بھی امّاں کو ملازمہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مصروف دیکھتا تو بڑی محبت سے کہتا: ”امّاں اب آپ گھرکے کاموں کی ذمہ داری شہلا کو سونپ کر آزاد ہو جائیں، آرام کریں اور ہم دونوں سے اپنی خدمتیں کروائیں ۔“
ناصر کی اس محبت پر امّاں کی آنکھیں بھر آتیں لیکن وہ بڑے رسان سے اسے سمجھا دیتیں، ”بس بیٹا! رہنے دو ابھی اسے آزاد کچھ دن۔ عمر پڑی ہے کام کرنے کے لئے۔ یہی کچھ دن ہوتے ہیں لڑکیوں کے جب وہ کچھ آزادی محسوس کرتی ہیں۔ بعد میں تو بچّوں کی دیکھ بھال اور گھر گرہستی کے کاموں میں گزر جاتی ہے ان کی ساری زندگی، اور پھر ملازمہ بھی توہے میری مدد کیلئے بس ذرا نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے سو مَیں دیکھ لیتی ہوں ۔“
ناصر نے اماں کے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے گھر کے کاموں کیلئے کل وقتی ملازمہ بہت پہلے ہی رکھ لی تھی۔ بھلی اور ایماندار عورت تھی، کوئی بچہ بھی نہ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بے گھر ہوگئی تھی۔ یوں اسے بھی مخلص لوگ اور ایک چھت میسر آ گئی تھی ۔ امّاں اور ناصر اسے گھر کے فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔
ناصر کی دلہن کے روپ میں شہلا امّاں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ اس کی خوب ناز برداریاں کرتیں، اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی پسند کے کھانے پکواتیں، کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں، سجا سنورا دیکھ کر خوش ہوتیں، ہزاروں دعاؤں سے نوازتیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ کر مطمئن ہو جاتیں۔ لیکن شہلا عجیب مزاج کی لڑکی تھی اسے نہ امّاں پسند تھیں اور نہ امّاں کی محبت کے انداز بھاتے تھے۔ اسے صرف ناصر پسند تھا بلا شرکت غیرے۔
امّاں کا دل چاہتا کہ شہلا ان کے پاس بیٹھے بات کرے لیکن شہلا ناصر کے دفتر جاتے ہی اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی، گھر میں ہوتی تو ٹیلی ویژن پر ڈیلی سوپ اور فلمیں دیکھ کر وقت گزارتی، سہیلیوں سے فون پر باتیں کرتی اورسارا سارا دن یونہی اپنے کمرے میں گزار دیتی۔ یا پھر اسے ناصر کے ساتھ باہر گھومنے جانا پسند تھا۔ امّاں کی قربت اسے گوارا نہ تھی۔ شروع کے دنوں میں شہلا کی کم گوئی کو امّاں نے شرم پر محمول کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے نیازی انہیں محسوس ہونے لگی۔ جہاندیدہ تھیں، ایسے ہی رویوں کی ستائی ہوئی بھی تھیں سو خاموشی اختیار کر لی۔ ناصر سے بھی کچھ نہ کہا لیکن وہ شہلا کے اس رویے سے بے خبر نہ تھا اور خاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہلا کسی وقت نہ امّاں کے پاس بیٹھتی ہے نہ ان سے مخاطب ہوتی ہے۔ اور اگر امّاں خود اس سے مخاطب ہوتی ہیں تو لیے دیئے انداز میں نپے تلے جواب دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔
جب تک ناصر گھر میں رہتا اور امّاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو شہلا کو بھی ناصر کی وجہ سے بادلِ نخواستہ امّاں کے پاس بیٹھنا پڑتا لیکن اس کی کوشش یہی رہتی کہ ناصر بھی امّاں سے دور رہے۔ مگر دفتر سے لوٹ کر ناصر کا امّاں کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا روزانہ کا معمول تھا اور جب سے شادی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ امّاں اور شہلا روزانہ کچھ وقت ساتھ گزاریں، باتیں کریں۔ شہلا جب تک آکر نہ بیٹھتی ناصر اسے آوازیں دیتا رہتا۔ ناصر کے اصرار پر شہلا وہاں آکر بیٹھ تو جاتی لیکن اس کے چہرے سے بیزاری صاف جھلکتی جسے امّاں کے ساتھ ہی ناصر بھی خوب سمجھتا تھا بلکہ اب تو ملازمہ بھی امّاں کے تئیں شہلا کے اس رویے کو سمجھنے لگی تھی۔
ناصر کی فکر دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، وہ ہر حال میں امّاں اور شہلا کے درمیان اچھے تعلقات کا متمنی تھا ۔ ایک طرف شہلا اس کی بیوی جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا اور دوسری طرف امّاں تھیں جن کا دل دکھانے کا خیال بھی اس کے لئے سوہان روح تھا۔ امّاں سے تواس کا رشتہ ہی بہت انوکھا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان میں تو کوئی رشتہ ہی نہیں تھا.... نہ وہ اس کی سگی ماں تھیں نہ سوتیلی بلکہ وہ تو اس کی منہ بولی ماں تھیں۔ ناصر کے دل میں ان کے لئے بہت عزت و احترام تھا اوروہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔
امّاں اور ناصر کے اس انوکھے رشتے کی کہانی بھی خوب تھی....! ناصر صحافی تھا اور ایک مشہور ٹی وی چینل میں ریسرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ حالیہ پروجیکٹ کے تحت چینل کی طرف سے اسے ایسے فلاحی اداروں کا سروے سونپا گیا تھا جو عمر رسیدہ، بیوہ اور بے سہارا خواتین کے تحفظ اور فلاح کے لئے کام کر رہے تھے۔ ”آشیانہ“ نام کے ایک غیر سرکاری ’اولڈ ایج ہوم‘ میں اس کی ملاقات صابرہ خاتون سے ہوئی تھی۔ سروے کے دوران بزرگ اور بے سہارا خواتین کے بہت سے مسائل اور کچھ ایسی تلخ سچائیاں سامنے آئیں جن کا ناصر پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ بے سہارا اور عمر رسیدہ خواتین جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، ان اداروں میں انہیں روٹی، کپڑے اور ایک محفوظ چھت کے ساتھ ہی بیماری میں دوا علاج بھی اگر میسر تھا تو غنیمت تھا اور وہ اتنی سہولیات ملنے پر مطمئن اور خوش بھی تھیں۔ زندگی کی ڈھلتی شام میں ان کے لئے اتنا بھی بہت تھا۔ مگر ایسی بزرگ خواتین جو اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر یہاں پناہ گزین ہوگئی تھیں ذہنی طور پر زیادہ مایوس اور دکھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں کا انتظار جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ اور کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی آس کی ڈور کو یقین سے تھامے وہ اپنوں کی راہ دیکھ رہی تھیں کہ شاید ان کے دل میں کبھی محبت کا دیا روشن ہو جائے اور وہ انہیں یہاں سے لے جائیں۔ صابرہ خاتون بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں جو اپنے بیٹوں کی بے رخی کا شکار ہو کر اس ادارے میں آئی تھیں۔ تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے ناصر کو بتایا تھا۔
”ان کے دو بیٹے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کے شوہر کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئیں۔ والد کے گزر جانے کے بعد بچوں نے ان سے رابطہ کیا تسلی دی اور کاروباری مصروفیت کی بنا پر فوری آنے سے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی اپنے پاس بلانے کا یقین دلایا۔ مگر دو سال کا عرصہ گزر جانے پر بھی نہ وہ آئے اور نہ ہی مجھے اپنے پاس بلایا۔ شوہر کے گزر جانے کا صدمہ، بڑھتی عمر اور اکیلا پن مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں مجھے سب سے زیادہ اپنے بچوں کا انتظار تھا۔ میرا انتظار بڑھتا جا رہا تھا لیکن نہ وہ خود آرہے تھے اور نہ مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ ہاں میرے دونوں بیٹوں کی باقاعدگی سے بھیجی گئی رقم سے میرا بینک بیلنس بڑھتا جا رہا تھا اور ان کی بے رخی اور بے اعتنائی سے میرا دل خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے ان کے پیسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری خوشی تو اپنے بچوں اور ’ان کے بچوں‘ کے ساتھ رہنے میں تھی۔ حالانکہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر انڈیا میرے پاس آکر نہیں رہ سکتے لیکن مَیں تو ان کے پاس جا کر رہ سکتی تھی۔ نہ معلوم وہ خود مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے یا ان کی بیویوں کو میرا وہاں ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔“ بولتے بولتے ان کا گلا بھر آیا تھا مگر وہ خاموش نہیں ہوئیں شاید آج پہلی بار انہوں نے کسی سے اپنا درد بانٹا تھا....!
”تنہائی اور خاموشی مجھے ڈرانے لگی تھی، میری دلچسپی کسی چیز میں نہیں بچی تھی، میرے گھر کا وہ باغیچہ جس میں میرے لگائے ہوئے بیلے اور موگرے کے پھولوں کی مہک سے فضا میں ہر وقت بھینی بھینی سی خوشبو پھیلی رہتی تھی سوکھنے لگا تھا۔ دیسی گلاب کے وہ پودے بھی میری توجہ سے محروم ہو چلے تھے جن پر کھلنے والے پیازی رنگ کے پھولوں کی مہک سے میری روح تک معطر ہو جایا کرتی تھی۔ میرے بچوں کا بچپن ان کی معصوم شرارتیں، اچھل کود اور ہنسی کی وہ آوازیں جوگھر کے ہر گوشے میں محفوظ تھیں، تصور میں مجھے اپنا چہرہ دکھاتیں تو میری بے چینی اور بڑھ جاتی۔ اپنے ہی گھر میں ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح میں چکراتی پھرتی.... تب گھبرا کر مَیں نے وہ گھر بیچ دیا اور ساری رقم اسی ادارے کو دے دی اور مَیں خود بھی یہیں آگئی، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔ مَیں نے سوچا یہاں میرے جیسی اور بھی عورتیں ہوں گی سب مل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیں گی۔ جب سے یہاں آئی ہوں تنہائی کا احساس کافی حد تک کم ہوگیا ہے مگر دل کا درد کم نہیں ہوتا!“
(جاری)